افراط زر سے مزید مہنگائی کا خدشہ

………محمد شریف شکیب…..

مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں زیر گردش کرنسی نوٹوں کا حجم 49کھرب73ارب 44کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ فروری کے پہلے دو ہفتوں میں روزانہ 9ارب 19کروڑ روپے کے نئے کرنسی نوٹ چھاپے گئے ۔مجموعی طور پر 128ارب67کروڑ کے نوٹ صرف فروری میں چھاپے گئے۔ حکومت سٹیٹ بینک سے 99ارب جبکہ کمرشل بینکوں سے 21کھرب58ارب روپے کا قرضہ لے چکی ہے۔ اقتصادی ماہرین نے افراط زر کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور دیگر ملکوں سے اربوں ڈالر کی امداد اور قرضہ ملنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن حکومت کی کفایت شعاری پالیسی کے باوجود روزمرہ اخراجات میں کمی نہیں آرہی۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہاوس، گورنر ہاوسز کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرنے کے دعوے بھی کئے جارہے ہیں۔ مگر نچلی سطح پر کفایت شعاری کی پالیسی کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا ہے۔ اخراجات پورے کرنے کے لئے نوٹ چھاپنا مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان کے عام شہریوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی کہ ملکی خزانہ بالکل خالی ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کے دور میں کبھی اتنے بھاری قرضے لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ ہی مہنگائی کی شرح میں کوئی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے بجلی اور گیس سمیت روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء پر سبسڈی بھی ختم کردی ہے۔ اس کے باوجود مہنگائی روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔خزانہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جبکہ اس عرصے میں کوئی بڑا منصوبہ بھی شروع نہیں کیا گیا۔ ایف بی آر کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی کی شرح میں بھی بہتری آئی ہے اور بجٹ میں ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔ مگر ملک کی معاشی حالت سدھرنے کے بجائے روزبروز دگرگوں ہوتی جارہی ہے۔ اس صورتحال کو حکومت کے اقتصادی منیجرز کی نااہلی سے بھی تعبیر کیا جارہا ہے۔ ملکی وسائل بچانے کے لئے عارضی اور سطحی نوعیت کے اقدامات سے اصلاح احوال کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حکومت اور تمام سرکاری ادارے جب تک چادر کے مطابق پاوں پھیلانے کی پالیسی اختیار نہیں کرتے اور کفایت شعاری کو اپنا شعار نہیں بناتے۔ اخراجات میں کم از کم پچاس فیصد کمی نہیں کرتے۔ حالات بہتر ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی دعویدار حکومت کے اہلکار آج بھی جب گھر اور دفتر سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے درجنوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔غریب ملک کے محدود وسائل کو چند ہزار لوگ بے دردی سے لوٹ رہے ہیں ۔سرکاری محکموں میں ملازمین کی فوج ظفر موج ہے۔ ہر سیاسی حکومت نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے سرکاری محکموں میں تھوک کے بھاو بھرتیاں کیں۔ جن کی وجہ سے پاکستان سٹیل مل، پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز ، پاکستان ریلوے اور دیگر محکمے آمدنی میں روز بروز اضافے کے باوجود قلاش ہوچکے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے کئی مہینے گذر چکے ہیں سودنوں کا جو پلان بنایاگیا تھا۔ اس کے نتائج بھی معلوم نہیں ہوسکے۔ دو مرتبہ وفاقی بجٹ اور منی بجٹ پیش کرنے کے باوجود ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو فنڈز ملے ہیں نہ ہی بلدیاتی اداروں کے پاس وسائل ہیں۔ عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں جبکہ حکومتی اہلکاروں کو تبدیلی آنے کے بلندوبانگ دعووں سے فرصت نہیں مل رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کو عوام نے کرپشن کے خاتمے، بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینے، قومی وسائل پر عیاشیاں بند کرنے ، مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی لانے اور قرضوں کے بجائے اپنے وسائل پر انحصار اور کفایت شعاری کے ذریعے ترقی کرنے کے وعدوں پر ووٹ دیا تھا۔ لیکن اب تک نظام میں تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا۔ نان ایشوز کو ایشو بناکر ان پر سیاست کی دکان چمکائی جارہی ہے۔ اگر حکومت کے اقتصادی منیجروں سے صورتحال سنبھالی نہیں جارہی تو اقتصادی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دے کر معیشت کو سہارا دینے کے لئے فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے۔نوٹ چھاپ کر معیشت کو سہارا دینے کی پالیسی سے افراط زر میں اضافہ ہوگا جس سے مہنگائی کی ایسی لہر آئے گی کہ ملک کی 45فیصدغریب آبادی کی کمر ٹوٹ سکتی ہے۔جو سیاسی طور پر حکومت اور جمہوری نظام کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوگی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔