دروغ گورا حافظہ ریکارڈ شد

…………..تحریر:خالد محمود ساحر………….

کسی کی سچائی معلوم کرنی ہو تو اس موضوع کو دوبارہ چھیڑا جاتا جس پر اس بندے نے پہلے گفتگو کی ہو اور اس کی باتوں کو ترازو کے پلڑے میں ڈال کر پہلے کی گئی باتوں سے موازنہ کیا جاتا ۔اسی طرح اس کی سچائی اوراس کےجھوٹ کو معلوم کیا جاتا۔اگر ترازو میں ذرہ برابر بھی اونچ نیچ ہو جاتی تو ببانگ دہل اس آدمی کو جھوٹا قرار دیا جاتا ۔
جھوٹ بولنے والے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے جس موضوع پر وہ پہلے گفتگو کر چکا ہوتا ہے اوراس میں جو باتیں وہ پہلے کر چکا ہے اس کے تضاد الفاظ زبان سے نکالتا ہے اور پکڑا جاتا ہے ۔
عام آدمی ایک آدھ محفل میں ہی دروغ گورا کا خطاب لے اڑتا ہے۔لیکن خود سرکار ہو تو اس کو کوئی خطاب کیسے دے سکتا ہے ۔یہ ان القابات و خطابات سے تو بچ جاتے ہیں لیکن ان کی داڑھی میں تنکا ضرور نظر آتا ہے ۔آپس میں موازنہ برابری کے لوگوں میں ہوتا ہے کیونکہ پہلی سیڑھی میں کھڑا آدمی آخری سیڑھی میں کھڑے آدمی کا گریباں نہیں پکڑ سکتا ۔
باز جتنی اونچی اڑان بھرے اسے شکاری کے جال میں پھسنے کا ڈر ضرور ہوتا ہے اسلئے وہ اپنی نظر تیز رکھتا ہے۔
اسی طرح یہ لوگ بھی حافظے کے لئے خوب بادام پیٹ کی نذر کرتے ہیں لیکن بادام بھی حافظے کے بجائے ہاضمے کو مشقت بخشتے ہیں ۔کیونکہ جب آدمی کا وقت برا ہو تو بال منڈوائے بغیر ہی اولے پڑتے ہیں ۔
ایک حد تک یہ لوگ لفظوں کی ڈھال سے خود کی حفاظت کرتے ہیں لیکن آخر کار ان کے لفظ ہی ان کو جواب دینے لگتے ہیں اور وہ بے چون چرا دروغ گورے کا سہرا سر پہ سجا کر اپنی حیثیت کے مطابق دروغ گوروں کے گھر کے سرپرست اعلی بن جاتے ہیں ۔
جب تک ٹیلی وژن اور رکارڈنگ کا زمانہ رائج نہ تھا تب تک ان کے پکڑے جانے کا خطرہ تھا لیکن جب سے ٹی وی اور رکارڈنگ کا دور شروع ہوا ان لوگوں کو بادام کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔اس دور کے لیے ضرب لمثل ” دروغ گورا حافظہ نبا شد ” کارگر ثابت نہیں ۔
بلکہ یوں مناسب ہوگا۔
“”دروغ گورا حافظہ رکارڈ شد””
اب تو باتیں ایسی پھینکی جاتی ہیں جیسے سنگترہ کھاتے وقت منہ میں آئے بیج کو پھینکا جاتا ہے۔
بڑے آرام سے اپنی باتیں کہتے ہیں اور اطمینان کے ساتھ اپنے گھر جاتے ہیں ۔اس کی رکارڈنگ منگوا کر اپنے پاس جمع کرتے ہیں اور حسب ضرورت اسے دوبارہ چلا کر حافظے کی خوب درستگی کرتے ہیں ۔سینہ تان کر خود کو صادقین کی فہرست میں لا بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو ایک بات پر قائم ہیں ۔ہم سچائی کے مورت ہیں ہم میں دو رخاپن نہیں ۔
یوں ان کو سچائی اور ایمانداری کی سرٹیفیکٹ مل جاتی ہے جس کی تاریخ تنسیخ ان کے کمپیوٹر کی دماغ کے مرہون منت ہوتا ہے ۔ان کے گھر میں ان رکارڈنگ کا مقام کسی بیش قیمت موتی کے تجوری سے بھی محفوظ ہوتا ہے۔
خدا ناخواستہ اگر کسی موضوع پر گفتگو سے پہلے یہ رکاڈنگ ان سے گم ہوجائے تو ان کو دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بھی لاحق ہے اور رکارڈنگ کے ملنے تک ہسپتال ہی ان کے لئے سب سے موزوں جگہ ہوتا ہے۔رکارڈنگ اگر نہ ملےتو یہ یا تو جینے کا طریقہ بدلتے ہیں یا ملک۔تب جاکر ان کو اللہ کی آیت کا خیال آتا ہے۔ترجمہ:”جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لغنت ہے”

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔