ترش و شیرین….یومِ خواتین، چند معروضات 

………… نثار احمد…………
پچھلے وقتوں میں جب فیس بک نہیں ہوا کرتا تھا تو موبائل میں میسج پیکج لگا کر دوستوں، یاروں اور جاننے والوں کے ساتھ فاروڑ میسجز کا تبادلہ کرکے  دل کا بوجھ ہلکا کیا جاتا تھا. اِن میسجز میں حمیّتِ اسلامی پر مبنی مواد ، حکایات صحابہ، فضائل اعمال اور اقوالِ زریں وغیرہ سینڈ کرکے مفت میں بیٹھے بیٹھے ثواب کمانا میسج پیکچ کا اچھا مصرف جانا جاتا.  کار ِ خیر ہو، اور وہ ہو بھی ایک سستے پیکچ اور اُنگلی کے پَورے حرکت میں لاکر بٹن دبانے کے فاصلے پر، تو پھر کوئی احمق ہی ہو گا جو فِری میں خیر و ثواب سمیٹنے سے خود کو محروم رکھے گا. چنانچہ ہفتہ یا پھر مہینہ بھر کے لئے میسج پیکج لگایا جاتا اور دھڑا دھڑ میسجز فارورڈ کرنے کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا. پھر اُن میں بعض میسجز اس قبیل کے بھی ہوتے کہ اگر اللہ رسول سے محبت ہے تو آگے مزید دس بندوں کو فارورڈ کیجیے.
بارہا ایسا بھی ہوتا کہ ثواب کی نیت سے کسی انڈین فلم کی تشہیر بھی پورے جوش و خروش اور دینی ولولے کے ساتھ ہو رہی ہوتی. مثلاً میسج میں لکھا ہوتا کہ فلاں نام کی فلم ریلیز ہونے والی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی شان اقدس میں گستاخی کی گئی ہے اُس فلم کا بائیکاٹ کیجیے اور یہ میسج اپنے تمام دوستوں کو  فارورڈ کیجیے. نتیجتاً فری میں کسی انڈین فلم کی خوب پبلسٹی ہوتی.
پبلسٹی اور اشتہار میں اہمیت حمایت یا مخالفت کی نہیں، بلکہ مشہوری اور تذکرے کی ہوتی ہے. زیرِ بحث چیز اپنے تذکرے کے حجم کے مطابق لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے. تذکرہ جتنا زیادہ ہو گا اُسی حساب سے توجہ کا حلقہ بھی وسیع ہو گا.
مجھے یاد ہے کہ دو سال پہلے مجھے ایک موبائل فون کی ضرورت تھی. اُنہی دنوں فیس بک پہ ایک ناپختہ فکر لکھاری کی تحریر سے پتہ چلا کہ آنے والے جمعے کا دن بلیک ڈے قرار دیا گیا ہے اور اُس دن دراز ڈاٹ کام پہ مختلف مصنوعات پہ خاطرخواہ ڈسکاؤنٹ ملے گا. اُدھر دوست کی تحریر کا مقصد اِسے ایک سازش قرار دے کر اُس دن دراز ڈاٹ کام پہ کسی بھی قسم کی خریداری سے روکنا تھا.  اِدھر دل ہی دل میں مَیں نے اُس دوست کا شکریہ ادا کرکے دراز سے موبائل منگوانے کا فیصلہ کر لیا. اگر اُس دوست کی مخالفانہ تحریر پہ نظر نہ پڑتی تو مجھے پتہ ہی نہیں چلنا تھا کہ آنے والے جمعے کو دراز ڈاٹ کام کی طرف سے مختلف مصنوعات پہ خصوصی ڈسکاؤنٹ میسر ہے بھی، یا نہیں.
اپریل فول اور ویلنٹائن ڈے کی مثال ہی لے لیجیے اگر محراب میں تشریف فرما خطیب صاحب گلہ پھاڑ پھاڑ کر ویلنٹائن ڈے کی بخیاں نہ اُدھیڑے، اور سوشل میڈیائی مورچوں میں موجود مجاہد ِاسلام و الکلچر اپنے توپوں کے دھانے ویلنٹائن کی جانب کھول کر  محاذ گرم ہی نہ کریں تو زیادہ تر لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلنا، اور چودہ فروری نے چُپکے سے گزر جانا ہے.  میرا تجربہ تو یہی ہے. واللہ اعلم بالصواب. پچھلے سال انتیس یا تیس مارچ کے دن ایک دوست کی اپریل فول مخالف پوسٹ سے ہی مجھے یاد دہانی ہوئی تھی کہ کل اپریل فول ہے.
اسی طرح ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ آٹھ مارچ کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یومِ خواتین منایا گیا. یومِ خواتین کی مناسبت سے منعقدہ خواتین مارچ میں اپنے حقوق کے لئے بعض انتہائی مخلص باشعور خواتین کے علاوہ بڑی تعداد ایسی خواتین کی بھی تھی جن کے لئے خاندان، اقدار ، تہذیب،شائستگی، روایت، ناموس، مشرقیت، مسلمانیت اور پردہ جیسے الفاظ سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رکھتے ہیں. خواتین کے بنیادی حقوق سے زیادہ اِن کی دلچسپی مادر پدر آزاد معاشرے کے قیام میں ہے. چنانچہ ان خواتین نے اپنے ہاتھوں میں انتہائی بیباکانہ اور ناشائستہ الفاظ پر مشتمل کچھ پلے کارڈز بھی اُٹھا رکھے تھے اُن میں درج متنازعہ کلمات بی بی سی سمیت بین الاقوامی میڈیا اور قومی میڈیا کی وجہ سے اُتنی دلچسپی و توجہ حاصل نہیں کر سکے جتنی توجہ و دلچسپی انہیں سوشل میڈیا میں برپا مخالفانہ مہم کی وجہ سے ملی. مثلاً آٹھ مارچ کے دن ہر قسم کی حدود و قیود سے آزاد طرزِ زندگی کی طالب و متقاضی اِن معدودے خواتین کے یہ مطالبات اگر صرف پانچ بندوں تک رسائی حاصل کر چکے تھے تو آج گیارہ مارچ کو سوشل میڈیا میں برپا بے تحاشہ مخالفانہ مہم کی وجہ سے یہ مطالبات مزید ہزار بندوں کی آنکھوں کے سامنے سے گذر چکے ہیں. ایک سو بیس کی سپیڈ سے جاری ہماری یہ مہم  اِن معدودے خواتین کے نعرے اور ایجنڈے کو آگے پھیلانے میں معاون بنی ہے مزاحم نہیں.
مادر پدر آزاد معاشرے کے قیام کے لئے کی جانے والی کسی بھی کوشش کے تارو پود بکھیرنے کا قلمی و فکری جدوجہد اپنی جگہ درست ہونے کے ساتھ ساتھ اشد ضروری بھی ہے. کیونکہ واقفان احوال بتاتے ہیں کہ موجودہ دور میں بعض یورپی ممالک کے لبرل معاشروں میں رہنے والے مسلمان اپنی اولاد کی اخلاقی و اسلامی تربیت کے حوالے سے مایوسی کی سرحدوں کو چُھوتی فکر مندی کا شکار ہیں لیکن مخالفت برائے مخالفت اور مسئلے کو جڑ سے پکڑ کر سمجھے بغیر نیچے دبا کر مٹی ڈالنے سے آج نہ سہی، کل مزید خواتین اِن مادر پدر آزاد معاشرے کی خواہش مند خواتین کی ہم آواز بن جائیں گی.
مسئلے کی بیخ کُنی کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی جائز شکایات سُن کر اُن کے ازالے کی سعی کی جائے.  خواتین کو بہرصورت اُن کا شرعی، قانونی و اخلاقی حق دیا جائے. سینہ چوڑا کرکے تحکمانہ لہجے میں صرف اتنی بات کہنا کافی نہیں کہ اسلام نے عورتوں کو سب سے زیادہ حق دیا ہے. لاریب اسلام نے تو بہت کچھ دیا ہے. موروثی جائداد و دولت میں حق دینے کے ساتھ ساتھ انتہائی بلند مقام بھی دیا ہے . عزت بھی دی ہے اور خصوصی مراعات و پروٹوکول بھی . لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج کا مسلمان اِن حقوق کا عشرعشیر بھی عورت کو دینے پر عملاً راضی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا آج کا مسلمان اسلام کی ان تعلیمات کو عملی صورت میں دھار کر عورتوں کو اُن کا جائز حق دینے کے لئے سنجیدہ فکر مند بھی ہے؟ کیا عورت کو کسی نہ کسی انداز میں کسی نہ کسی عنوان سے کمتر اور پست تر باور نہیں کرایا جاتا؟ ان سوالوں کا جواب اگر “نہیں” میں ہے تو پھر ہمیں اپنے رویوں پہ نظرثانی کی اشد ضرورت ہے. فساد و خرابی والا سارا کھاتہ عورت کے ناتواں کندھے میں ڈال کر مطمئن رہنے سے وقتی طور پر مسئلہ دَب تو ضرور جائے گا لیکن حل ہرگز نہیں ہو گا.
یہ روش کسی بھی زاویے سے ٹھیک نہیں ہے کہ خواتین کے حقوق کے لئے اُٹھنے والی ہر صدا کو مغرب کی آواز باور کراکر اُس کا گلہ گُھونٹا جائے. مغرب کی بات بلاشبہ سنی جائے نہ مانی. لیکن اکیلے میں بیٹھ کر اپنے آپ سے یہ ضرور سوال کیجئے کہ کیا میں خواتین کو اُن کا جائز مقام و حق دینے کے لئے بالکل تیار ہوں؟ کیا میرے آس پاس اردگرد کے سارے لوگ عورتوں کو اُن کا جائر حق دینے کے معاملے میں سنجیدہ فکر مندی دکھا رہے ہیں؟اگر مشرقی عورت کو اُس کے حقوق سے محروم نہیں رکھا گیا تو یقین کیجئے کہ بیرونی راتب پہ پلنے والی کسی بھی این جی او کی وقتی خوشنما مہم سے اس کو کوئی خطرہ نہیں ہے..
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔