داد بیداد …اسلامو فو بیا 

آج کل ریڈیو ، ٹیلی وژن اور اخبارات میں ’’ اسلا مو فو بیا ‘‘ کی تر کیب بار بار آرہی ہے بر اعظم اسٹریلیا کے چھوٹے جز یرے نیو زی لینڈ میں دو مسا جد پر آسٹریلوی با شندے کی طرف سے ہلا کت خیز حملوں کو 7دن گذر نے کے بعد حملہ ، سازش ، عیسائیت ، مذہبی جنو نیت اور دیگر الفاظ و ترا کیب کے ساتھ ’’ اسلامو فو بیا ‘‘ کی تر کیب تر ک صدر رجب طیب اردگان نے استعما ل کی اُن کا اشارہ سرد جنگ کے زمانے میں مغربی مما لک کے اندرروس کا ڈر ’’ رسوفو بیا ‘‘ اور سرد جنگ کے بعد مغرب میں بڑھتے ہوئے چین کا ڈر ’’ سینو فو بیا ‘‘ کی طرف تھا اُن کا مطلب یہ تھا کہ اب مغرب میں روس کا خوف نہیں رہا ، چین کا خوف نہیں رہا ، اسلام کے خوف نے دونوں کی جگہ لے لی ہے انگریزی لفظ فو بیا کا اردو تر جمہ ترس ، خوف یا خوف کا مر ض کیا جا تا ہے یہ مر ض جس کو لا حق ہو جائے وہ خوفزدہ حا لت میں دوسروں پر حملے کر کے اپنا خوف چھپا تا ہے اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ خوف ہے جر من لیڈر بسمار ک نے 1870ء میں پیش گوئی کی تھی کہ دنیا پر ایسے لو گ مسلط ہونگے جن کی کوئی تاریخ نہیں ہو گی اگست 1945ء میں جا پان کے دو بڑے صنعتی شہروں پر ایٹم بم بر سائے گئے تو بسمارک کی پیش گوئی سچ ثا بت ہوئی اس کے بعد دنیا پر ایٹمی حملوں کا خوف طاری رہااس خوف سے اسلحہ کے تا جروں نے فائدہ اُٹھا یا اکیسویں صدی کی سب سے بڑی صنعت اسلحے کی صنعت ہے اور سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار اسلحے کا ہی کاروبار ہے جنگ اور امن کی کنجی ان مما لک کے ہاتھوں میں ہے جو اسلحہ بناتے اور بیچتے ہیںیہی ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ہیں اور ویٹو پاور کے مالک ہیں اقوام متحدہ کے دیگر ممبر ملکوں کی حیثیت کسی فلم یا ڈرامے کے اندر مہمان اداکار یا گیسٹ سٹار جیسی ہے ترک صدر رجب طیب اردگان نے اسلاموفوبیا کی تر کیب استعمال کرکے تین بڑے حقائق کی نشان دہی کی ہے سرد جنگ کے زمانے میں کمیونزم سے مغربی ممالک کو جو خطرہ تھا وہ سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے کا خوف تھا مغرب کا سرمایہ دار غریب کا خوں چوستا ہے علامہ اقبال نے مغر ب کے معاشی نظام پر لینن کی زبان سے جامع تبصرہ ایک شعر میں کیا ہے ؂
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگ مفاجات
مغرب کو اسلام سے پہلا خوف سودی نظام کی جگہ سود سے پاک ،مساوات اور انصاف پر مبنی معاشی نظام کی اسلامی تعلیمات کی وجہ سے ہے دوسرا خوف اسلامی نظامِ عدل سے ہے اور تیسرا خوف اسلام کے اندر سماجی تحفظ کے قوانین سے ہے یہ ایسے انسانی معاشرے کی تین بنیا دیں ہیں جو مغر بی افکار اور مغربی تصورات سے متصادم ہیں گذشتہ صدی کے اختتام سے پہلے مشہور ماہر سماجیات ڈاکٹر سموئیل پی ہن ٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ اس حوالے سے پیش کیا تھا ایک تہذیب سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کا حامی ہے دوسری تہذیب انسانی مساوات ، عدل اور انصاف کی حمایت کرتی ہے دونوں میں تصادم فطری امر ہے سابق امریکی صدر جمی کارٹر ،رونالڈ ریگن اور سابق بر طانوی وزیر اعظم مار گریٹ تھیچرسے ایسے سوال کئے جاتے تھے کہ روس کے مقابلے میں مسلمانوں کو اسلحہ ، تربیت اور دولت دے کر مسلح کر کے ہم اپنے پاوں پر کیوں کلہاڑی مار رہے ہیں ؟ مسسز مارگریٹ تھیچر نے کہا کہ روس کو شکست دینے کے بعد مسلمانوں کے خلاف محاذ جنگ کو گر م کیا جائے گا جمی کا رٹر نے کہا مسلمانوں کی تربیت ہم اس انداز میں کرینگے کہ یہ خود ایک دوسرے کو مار کر میدان ہمارے لئے صاف کرینگے رونالڈریگن کا قول ہے کہ کمیونزم کے اندر اختلافات نہیں تھے اس کو شکست دینا مشکل تھا مسلمانوں کے اندر اختلافات بہت زیادہ ہیں یہ لوگ خود آپس میں لڑ کر ہمارا کا م آسان کر دینگے رونالڈ ریگن کے دور میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے یہی سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کمیونسٹ لالچ میں پھنسنے والے نہیں تھے مسلمان لالچ میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں گویا اسلامو فو بیا اس وقت بھی مو جو د تھا اسلام کے تین بنیادی قوانین ، معیشت ، عدالت اور سماجی تحفظ سے مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو 1970ء کے عشرے میں بھی خوف آتاتھا اب بھی خوف آتا ہے سرمایہ داروں نے 1980ء کے عشرے میں مسلمانوں کے اوپر ’’دہشت گرد‘‘ کا لیبل چسپان کرکے اسلام کے چہرے کو مسخ کیا اس وجہ سے علمی محاذ پر مسلمانوں کو دفاعی مورچہ سنبھالنا پڑا ترک قوم نے تاریخ کے ہر نازک موڑ پر مسلمانوں کو بھنور سے نکالا ہے اب بھی ترک صدر رجب طیب اردگان آگے بڑھ کر ’’ اسلامو فوبیا ‘‘ کا موثر جواب دے رہے ہیں
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔