چترال میں لینڈ سیٹلمنٹ …..تنازعے کی نوعیت، مضمرات و نتائج(قسط-2)

تحریر: جی کے سریر……….
14,850 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ضلع چترال کے کل رقبے کا 4.8٪ جنگلات، 76٪ پہاڑوں اور باقی ماندہ قابل کاشت رقبوں، غیر آباد علاقوں اور دریاؤں پر مشتمل ہے۔ ابھی تک مختلف ذرائع سے حاصل شدہ غیر مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 10,000 مربع کلومیٹر سے زائد پہاڑی جبکہ باقی ماندہ میں سے 2,000 مربع کلومیٹر کے قریب علاقے کو سرکاری ملکیت قرار دی گئی ہے۔
فی الوقت چترال کی اکثریت سمجھتی ہے کہ جنگلات، غیر آباد علاقے، ریور بیڈ وغیرہ مٹھی بھر لوگوں کی ذاتی ملکیت ہونے کی بجائے اگر سرکاری قرار دیے جائیں تو عوام الناس کے وسیع تر مفاد میں ہوگا یا ان کے نزدیک سرکاری سے مراد ہی عوامی ملکیت ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سارے علاقوں میں نجی/گروہی ملکیت کے نام پر مختلف برادریوں کی جانب سے اجتماعی چراگاہوں، شکار گاہوں، ریور بیڈ وغیرہ پر دعوؤں سے باہم اعتماد و اتفاق کی جگہ علاقے کی فضاء مکدر ہوگئی ہے۔ تاہم کچھ چیزوں کا جائزہ لیے اور ان کے نتائج سے باخبر ہوئے بغیر معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاسکتا۔
1975 کے نوٹیفکیشن کے تحت نجی اراضی کو چھوڑ کر یک جنبشِ قلم تمام غیر آباد زمینیں، چراگاہیں، شکار گاہیں، معدنیات وغیرہ سرکاری املاک ٹھہرا کر عوام کو صرف جلانے اور پرمٹ کے زریعے عمارتی لکڑی لانے اور مال مویشی چرانے کی رعایت کو تسلیم کیا گیا ہے جن میں بعد میں جنگلات کی رائلٹی بھی ڈال دی گئی ہے۔ ان مراعات یا مجاز آفیسر کے تعین کردہ قواعد کو چھوڑ کر سرکاری ملکیت سے کسی قسم کا استفادہ یا ان پر تصرف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
مذکورہ نوٹیفکیشن کے تناظر میں علاقے میں لینڈ ریکارڈ کی سب سے بڑی پیچیدگی شاملات سے متلعق ہے۔ 1992 کی سپریم کورٹ آف پاکستان کی تشریح کے مطابق شاملات سے مراد “کوئی بھی بنجر، پہاڑی یا گھاس پھوس اگانے والی مشترکہ زمین/ملکیت ہے۔ عام لفظوں میں شاملات سے مراد وہ زمین ہے جسے کسی علاقے کے لوگوں نے کسی بھی اجتماعی استعمال میں لائے ہوں جیسا کہ ہمارے ہاں “آن، ادرخ، غاری، موݰین دران، دارشات دران، جُنالی” وغیرہ ہیں جہاں مال مویشی چرائی جاتی یا جہاں سے جلانے کی لکڑی/گھاس (چارہ) لائی جاتی ہے۔
سرکاری قرار دی جانے والی املاک کے مقابلے میں شاملات لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں جن پر کمیونٹی کی جانب سے مکمل تصرف ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو ایسی زمینوں کی آپس میں تقسیم بھی ہوسکتی ہے یا انہیں سرکار کے استعمال میں لانے کی صورت میں لوگوں کو رائلٹی یا دیگر مراعات کا مکمل استحقاق حاصل ہوتا ہے۔
 پاکستان کے میدانی حصوں میں سرکاری املاک اور عوامی شاملات کی واضح تشریح و ترویج ملتی ہے۔ مگر چترال میں بغیر اعدادوشمار معلومات کے مطابق چند استثنائی صورتوں کے علاؤہ “ژانگ ژوئی” یعنی آخری/اوپری نہر کو بیس لائین قرار دےکر باقی کی صدیوں سے لوگوں کے زیرِ استعمال چراگاہیں، غیر آباد زمینیں اور ڈھلوانی علاقے سرکاری کھاتے میں ڈالے گئے ہیں۔
اس حساب سے اگر شاملات سرکاری املاک کا حصہ بن جاتے ہیں تو اس کے نتائج و ثمرات چترالیوں کے اجتماعی مفاد میں مقابلتاً سودمند نہیں ہوں گے۔ بےشک گھاس اٹھانے یا مال مویشی چرانے کی حد تک عوام سرکاری املاک سے استفادہ حاصل کرسکتا ہے۔ مگر اپنی ضرورت اور مرضی کے مطابق ان کی تقسیم اور نہریں نکال کر ان کی آباد کاری ممکن نہیں رہے گی۔ ان پر گھر بنانے یا دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے سرکار کی تحریری اجازت درکار ہوگی۔ اگر ان زمینوں کو حکومتِ خیبر پختونخوا غیر علاقائی لوگوں کے ہاتھ لیز پر چڑھانا، فروخت کرنا یا ان پر سرکاری عمارات وغیرہ کھڑی کرنا چاہے یا ان کے استعمال پر عوام کو ٹیکس ادا کرنے کا پابند بنائے تو لوکل کمیونٹی مزاحم نہیں ہوسکے گی۔ سرکاری املاک پر بجنسہٖ عوام کسی قسم کی رائلٹی کی قانونی دعواگیر بھی نہیں ہوسکتی۔ البتہ کسی ناگہانی صورتحال کے پیش نظر حکومت اگر چاہے تو بستیاں بسانے کی اجازت یا دیگر مراعات دے سکتی ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔