داد بیداد …لوکل گورنمنٹ 

اخباری اعلانات کے مطابق لوکل گورنمنٹ کا نیا بل تیار ہے نیا قانون کابینہ سے منظوری کے بعد اسمبلی ایکٹ کے ذریعے نافذ کیا جائے گا حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ اگست 2019ء میں موجود ہ بلدیاتی نمائندوں کی مدت پوری ہوگی ستمبر 2019ء میں نئے ضم شدہ اضلاع کو ملاکر پورے خیبر پختونخوا میں نئے انتخابات کرائے جائینگے نئے قانون میں ضلع کونسل اور ضلعی حکومت ختم کی جائیگی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن ، ویلج کونسل اور نیبر ہُڈ کونسل رہ جائینگی کونسلروں کی تعداد کم کی جائیگی 2015ء میں بلدیاتی انتخابات کاتجربہ پورے ملک میں ناکامی سے دوچار ہوا خیبر پختونخوا میں بھی کسی ضلع سے کامیاب بلدیاتی حکومت کی رپورٹ نہیں آئی کراچی میں ایم کیو ایم کو حکومت ملی وسیم اختر ناظم منتخب ہوگئے اس لئے سسٹم کو روک دیا گیا اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) جیت گئی مگر طارق فضل چوہدری نے وفاقی دارلحکومت میں بلدیاتی اداروں کو اختیا رات منتقل کر نے میں لیت و لعل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا 3سال بعد مخالف پارٹی کی حکومت آئی تو بلدیاتی دفتر ات عملاََ بند ہوگئے لاہور اور کوئٹہ کا حال بھی مختلف نہیں تھا خیبر پختونخوا میں 3طرح کے تجربے ہوئے 25میں سے 11ضلعوں میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے حکومت بنائی ایبٹ آباد اور پشاور میں حکومت بنانے کے بعد حکمران جماعت کی صفوں میں پھوٹ پڑ ی اور 4سال اسی خلفشار میں گذرے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا باقی 9اضلاع کو فنڈ دے دئیے گئے جن 14ضلعوں میں دوسری جماعتوں کی حکومتیں بن گئیں ان کو ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کئے گئے یوں 4سالوں تک یہ لوگ ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہے عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا تیسرا تجربہ پہلے دونوں تجربوں سے زیادہ تلخ تھا تمام 25اضلاع میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین نے بلدیاتی نمائندوں کے حق نیابت کو تسلیم نہیں کیا یوں بلدیاتی حکومت لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی جگہ بجائے خود مسئلہ بن گئی ستمبر 2019ء کے بعد پھر انتخابات ہونگے پھر ’’سوکنوں ‘‘ کو اقتدار ملے گا پھر’’ سوتیلی ماں‘‘ میدان میں آئیگی اور عوام کو ’’نیا تماشہ‘‘ دکھایا جائے گا ماضی قریب کے تجربے کی روشنی میں سینئر قانون دانوں نے تجویز دی ہے کہ جب تک صوبائی اورقومی اسمبلیاں موجود ہیں تب تک بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرکے بلدیاتی اداروں کے لئے بیورو کریسی سے ایڈ منسٹریٹر مقرر کئے جائیں ان کو فنڈ اور مراعات دیکر عوام کے چھوٹے موٹے مسائل ، شہری نظام کی درستگی اور دیہات میں لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کام سونپ دیا جائے تاکہ وسائل کا ضیاع نہ ہو خواہ مخواہ انتخابات کی وجہ سے مزید خلفشار اور انتشار نہ ہو دوسری طرف ایک تھنک ٹینک نے تجویز دی ہے کہ صدارتی نظام نافذ کرکے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اختیارات بلدیاتی اداروں کومنتقل کئے جائیں امریکہ اور چین کی طرح صوبوں کی کوئی اسمبلی نہ ہو صدر مملکت کے ہاتھ میں اختیارات ہوں، ترقیاتی فنڈ لوکل گورنمنٹ کے ذریعے خرچ کرنے کا مکینزم دیا جائے تاکہ ممبران اسمبلی اور ناظمین کے درمیان مراعات اور اختیارات کی بندر بانٹ کے لئے رسہ کشی نہ ہو امریکہ اور چین کے اندر ایسا ہی ہے پاکستان کی طرح غریب ، ناخواندہ اور مقروض ممالک میں بھی ایسی مثالین ملتی ہیں جہاں شرح خواندگی 60فیصد سے کم ہے صنعتی اور زرعی ترقی کا کوئی بنیا دی ڈھانچہ موجود نہیں بیرونی قرضوں کا بوجھ الگ اٹھانا پڑتا ہے اس کے باوجود وہاں لوکل گورنمنٹ ہی لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پرحل کرتی ہے نیپال اور تھائی لینڈاس کے کامیاب نمونے پیش کرتے ہیں جنوبی کوریا ترقی پذیر ممالک میں سے ایک قابل تقلید مثال ہے پاکستان کے اخباری حلقوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ جنوبی کوریا نے لوکل گورنمنٹ اور 5سالہ ترقیاتی منصوبہ بندی کا خاکہ 1960ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان سے لیا تھا یہ منصوبہ جنوبی کوریا میں کامیاب ہوا پاکستان میں اس کا بوریا بستر ہی لپیٹ دیا گیا 2015ء کے ناکام تجربے کے بعد خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عوام میں کوئی جوش وخروش نہیں پایا جاتا نچلی سطح پر کوئی تیاری کوئی ہلچل کوئی جوڑ توڑ نظر نہیں آتی اندازہ یہ ہے کہ سنجیدہ سیاسی حلقے اس میں حصہ نہیں لینگے اس لئے اصلاح احوال کے دو راستے ہیں یا حکومت نئی قانون سازی کے ذریعے صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے بلدیاتی انتخابات کرائے اور اختیارات کے ساتھ وسائل بھی لوکل گورنمنٹ کو منتقل کرے اگر یہ ممکن نہ ہو تو انتخابات کو ملتوی کرکے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو چلانے کے لئے قابل اور تربیت یافتہ افسروں کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے تاکہ نچلی سطح پر کسی خلفشار اور انتشار کے بغیر عوامی مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہو پشتو کے ممتاز شاعر سیف الملوک صدیقی مستز اد نظم میں کہتا ہے ’’یا مجھے اپنا وصال دیدو کہ دونوں ایک ہو جائیں یا میرا سر قلم کردو کہ فریاد نہ اُٹھے یا یوں کرو یا یوں کرو‘‘
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔