درحقیقت )زمہ دار کون ؟

تحریر: ڈاکٹر محمد حکیم۔۔۔۔۔۔

ایک زمانہ تھا ۔ہم حضرت مولانااسرارالدین الہلال کے پاس ترجمعہ قرآن سکھنے جاتے تھے۔ایک دن ڈی سی چترال اس کے پاس آئے اور جس جگہ میں جھو لا آجکل لوگون کو سہولیات پہنچا رہا ہےپر پیدل پل بنانے کا منصو بہ پیش کیا۔اور بالکل عہد کیا کہ اس میں ضرور پل بنایا جائے گا۔ مگر بدقسمتی سے اس کے تباد لہ نےیہ سب کچھ بننے نہ دیا۔اور اس کے بعد کئی لوکل حکومتیں اور کئی قومی حکومتیں آتی رہیں۔۔لیکن یہان پل بنانے کا کسی نے نہیں سوچا۔حالانکہ یہ وقت حال کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ دونوں اطراف سے مواصلات کا واحد سہارا ہے۔جہاں سے گرلز کالج کے طلباء کالج جاتے ہیں کاروباری حضرات اور ملازم پیشہ افراد مختصر وقت میں اپنےڈیوٹی کی جگہ پہنچ جاتے ہیں
یہ کوئی دانشمندی نہیں ہے۔یہاں سے ایک انسان کی انفرادی گناہ کے بدولت اس سہولت کو تمام عوام کے لئے بند کردیا جائے۔لوگ بازار سے چوہا مار ادویات خرید کر کھا کر خود کشی کرتے ہیں۔ اگر بند کرنا ہے تو ان کو کریں۔ چترال میں اوسطاَ 20 سے 30 لوگ خود کشی کے شکار ہوتے ہیں۔ اگر بند کرنا ہے تو اس کو بند کر دیا جائے۔ شرم کی بات ہے کہ نا ظم اعلٰیٰ گورنر کاٹیج میں محل علیشان میں رہتاہے۔اور اس کے علاقے میں لوگ جھولے میں بھی بیٹھ کر سکول کالج اور دفتر وقت پر پہنچ نہیں سکتے ہیں۔ یہ چترال انتظامیہ اورضلعی حکومت کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس جگہ پیدل پل گرلز کالج اور ملازمین کیلئے تعمیر کرنے کی بجائے یہاں سے اس سہولت کو ایک فرد کی گناہ کیلئے بند کرنا یہ یقیناَ ناکام زمہ داری اور زمہ دار لوگوں کی نا اہلی کو ظاھر کرتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔