شکر گزار ی کے تقاضے

……… تحریر: اقبال حیات آف برغذی
حیات آباد پشاور کا ایک معروف علاقہ ہے ۔عموماً یہ صاحب ثروت لوگوں کی آما جگاہ ہے۔ یہاں گھر بنانے کا بڑے فخر سے تذکرہ کیا جاتا ہے۔ کئی فیزوں پر مشتمل ایک وسیع وعریض رقبے پر پھیلے ہوئے انسانوں کی اس بستی میں رہائش پذیر اپنے ڈاکٹر بیٹے کے ساتھ چند دن گزارنے کا اتفاق ہوا۔ ایک دن یہاں کے مارکیٹ میں دوکانداروں سے گپ شپ کے دوران میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کی زندگی کے خدوخال مجھے عجیب لگتے ہیں۔ان کی طرف سے وجہ دریافت کرنے پر میں نے کہا کہ ہر طرف نظر دوڑانے سے اونچی اونچی عمارتوں او ر ان کے اوپر نیلگوں آسمان کے سوا کائنات کا کوئی رنگ یہاں نظر نہیں آتا۔ کائنات کے رنگ کے تصور کے بارے میں پوچھنے پر میں نے کہا کہ جس طرف بھی نظر جائے رنگ برنگ میوہ دار درختوں کے کھلے پھول بصارت کو اور ان پر بیٹھے مختلف قسم کے پرندے سریلی آواز میں نغمہ سراہوکر سماعت کو لذت فراہم کریں۔ وہ میری بات کو کاٹتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگے کہ ایسا تو جنت کا منظر ہوگا۔میں نے سینہ تان کر کہا کہ زمین پر چترال نام سے موسوم ایسے جنت کے ہم باسی ہیں۔وہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکتے ہوئے خاموش ہوگئے۔
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو میرے اس دعوے میں مبالغہ آرائی کا شائبہ تک بھی نظر نہیں آئے گا۔ کیونکہ خالق نے ہمیں ایسے دیس سے نوازا ہے۔ جو ہر قسم کی رعنائیوں او ردلفریب مناظر سے مزین ہے۔ جس طرف بھی نظریں اٹھتی ہیں ہر یالی ہی ہریالی آنکھوں کو لبھاتی ہے لہلہاتے کھیت ،ندی نالوں میں گنگناتا ہوا پانی،چترال کے سینے پر دھیمی آواز کے ساتھ بہنے والا دریا ،پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی سفیدی،ہربدلتے موسم کے ساتھ مختلف آوازوں میں نغمہ سراپرندے ،خصوصاً اپریل کے وسط میں واردہونے والے مایون نام سے موسوم مخصوص پرندے کی ثنا خوانی،مختلف درختوں پر رنگ برنگے میووں کی دل آویزی،گرمیوں میں گھنے درختوں کے سائے،خزان میں پت جھڑکا دلکش رنگ،سردیوں میں آسمان سے پھول برسنے کے انداز میں برفباری،راتوں کو آسمان پر جگمگاتے مختلف ستاروں اور سیاروں کے جھرمٹ کا حسین منظر مختصر یہ کہ ایسا حسن جس کی منظر کشی کرتے ہوئے بھی دل میں بہار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہاں کے مکینوں کو بھی اللہ رب العزت نے ایسی طبیعت اور مزاج سے نوازا ہے ۔کہ ہرکسی کا چہرہ عداوت،نفرت اور ناپسندیدگی کے زنگ سے ناآشنا بشاشت اور خوش طبعی سے لبریز ہوتا ہے۔ خودداری ان کی رگ رگ میں شامل ہے۔ امیر و غریب سب شاہانہ طبیعت سے سرشار ہوتے ہیں۔ یہاں کے روایتی پوشاک ان کے ساتھ سجتا ہے۔ باہمی عداوتوں اور قتل وغار تگری سے ناآشنا،ادب احترام،رواداری اور ملنساری کے اوصاف سے مالامال ۔معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے کے گریبانوں کی طرف ہاتھ اٹھنے کے قبیح فعل سے گریزان یہاں کی بولی کھوار میں حلاوت اور مٹھاس ہے۔ نازیبا الفاظ سے عام طور پر ہر کوئی اپنے لب محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ معاشرہ چوری اور ڈکیتی کی واردات سے پاک امن وسکون کا گہوارہ ہے۔ راتوں کو اکیلے سفر کرنے یا کھلے آسمان تلے شب باشی کرتے ہوئے جان ومال کے تحفظ کے خطرے سے ہرکوئی بے نیار ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ ان بے شمار نعمتوں سے مالامال علاقے سے وابستگی کے باوجود شکر گزاری کے فقدان کا احساس ہوتا ہے جو یقیناًایک بڑی بدنصیبی ہے۔ اور ساتھ ساتھ اپنی روایتی تشخص لباس اور کلچر کی صورت میں دوسروں کے رنگ میں رنگین کرنے کی طرف میلان اور رغبت چترال کے مستقبل کے بارے میں مایوس کی کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔
خداکرے میری ارض پاک پر اُترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔