داد بیداد ……ہڑ تا لوں کا مو سم 

بجٹ کے دن قریب آتے ہی وطن عزیز میں ہڑ تا لوں کا مو سم شروع ہو جا تا ہے پھر ان میں ’’خود ساختہ ‘‘ ہڑ تا لوں کو شامل کیا جا تا ہے اور چند مہینو ں تک شور شرابا جاری رہتا ہے میرے سامنے تازہ اخبار ہے اس میں ہڑ تال اور احتجا ج والی خبروں پر نشان لگا یا اور گنتی شروع کی تو ایک دن کے ایک ہی اخبار میں ہڑ تال اور احتجا ج کی 7خبریں 3کا لمی اور 2کالمی سر خیوں میں شائع ہوئی ہیں 5خبروں کا تعلق بجٹ سے ہے اور 2خبروں کا تعلق خود ساختہ اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہیجا ن اور تنا ؤ کی کیفیت سے ہے ہمارے ہاں کو ہستانی زبانوں میں ایک مشترک مقولہ ہے کہتے ہیں کہ ’’ ریچھ کے پاس ڈھنگ کا کوئی کام نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو ٹٹو لتا رہتا ہے ‘‘ حکومتیں جب ٹھیک ٹھا ک نظا م حکومت اور چلتے ہوئے سسٹم کے کل پُر ذے اِدھر اُدھر کر کے نظام کو بریک لگا دیتے ہیں تو اُس پر یہ مقو لہ صا دق آتا ہے یو نیورسٹی ملا زمین کا احتجا ج ، ہڑتال اور دھر نا 3کا لمی خبر ہے اس میں دفتری نظام ٹھپ ہونے کا اشارہ دیا گیا ہے لیڈی ہیلتھ ور کر زکا جلوس ، احتجا ج اور صو بائی اسمبلی کے سامنے دھر نا بھی 3کا لمی خبروں میں شا مل ہے اس کی ذیلی سر خی میں ٹریفک نظام در ہم بر ہم ہو نے کی خبر دی گئی ہے آل ٹیچر ز گرینڈ الا ئنس نے مطا لبات کے حق میں احتجا ج اور مظا ہرہ کیا ہے اس کی دو کا لمی خبر ہے پرائیویٹ سکولز منیجمنٹ ایسو سی ایشن نے ریگو لیٹری اتھارٹی کے خلا ف احتجا ج اور ہڑ تال کا اعلان کیا ہے سول سکرٹریٹ کے ملا زمین نے اپنے مطا لبات کے حق میں 23اپریل سے احتجاجی تحریک اور ہڑ تال کی دھمکی دی ہے قبائلی عوام نے ما موزی یوتھ فورم کے ذریعے متا ثرین کی گھروں کو واپسی اور مسمار شدہ گھروں کی بحا لی کے لئے احتجا جی تحریک کا اعلان کیا ہے یہ بھی 2کا لمی خبر ہے صفحہ اول پر ایک اور 2کالمی خبر میں بتا یا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے اور قدیمی تاریخی ہسپتال میں سینئر ڈاکٹروں کے استعفیٰ کا معا ملہ اسمبلی میں اٹھا یا گیاہے اپو زیشن لیڈر اکرم خان درانی نے توجہ دلاؤ نو ٹس کے ذریعے مطا لبہ کیا ہے کہ سینئر ڈاکٹر وں کے استغفے سے سر کاری ہسپتالوں میں صحت کی سہو لیات کا کباڑہ ہو جائے گا اور صو بے کے غریب عوام مشکلات سے دو چار ہو جا ئینگے یہ ایک دن کے ایک ہی اخبار کی جھلکیاں ہیں اگر دو ، تین دنوں کے دو چار اخبارات کو سامنے رکھ کر عوامی ردّعمل کا جائزہ لیا جائے تو پتہ لگیگا کہ ’’ سب اچھا ‘‘ نہیں کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ہے اور ضرور گڑ بڑ ہے محکمہ اطلا عات میں طویل عرصہ خد مات انجا م دینے والے سینئر افیسر اور ممتاز دا نشور قا ضی سرور کہا کرتے تھے کہ عوام اور ملا زمین جب ہڑ تال اور احتجا ج کرنے پر اتر آتے ہیں تو عمو ماً اس کی تین وجو ہات ہوتی ہیں پہلی وجہ یہ ہو تی ہے کہ ان کو حکومت کے وعدوں پر اعتما د نہیں ہو تا دوسری وجہ یہ ہو تی ہے کہ حکومت ایک جا ئز مطا لبے کو اُس وقت تک نہیں مانتی جب تک ہڑ تال ، احتجا ج ، توڑ پھوڑ اور بد امنی یا فساد نہ ہو تیسری وجہ یہ ہو تی ہے کہ حکومت کو خا رش لگ جا تی ہے خا رش زدہ حکام ٹھیک ٹھا ک سسٹم میں مدا خلت کر کے چلتے پھر تے نظام کو تہ با لا کر دیتے ہیں اور ملا زمین کو ہڑ تال پر مجبور کر دیتے ہیں سینئر ڈاکٹروں اور پرائیویٹ سکو لوں کے ساتھ ایسا ہی وا قعہ ہوا ہے بلا وجہ اور بلا اشتعال ایک اچھے خا صے سسٹم کے اندر توڑ پھوڑ کا آغاز ہو اہے اس کے نتیجے میں تناؤ ، ہیجا ن اور بے چینی فطری امر ہے جہاں تک ملا زمین کی مراعات اور حقوق کے حوالے سے ہڑ تال اور احتجا ج کا تعلق ہے اس کی بنیا دی وجہ حکومت کی وہ پا لیسی ہے جو ہڑ تال اور احتجا ج کے بغیر جا ئز اور منا سب مطا لبے پر غور کرنے سے حکام کو روک دیتی ہے معقول تجویز کو اوپر بھیجے اور منظور کر وانے کے لئے دو لا زمی جملے لکھنے پڑتے ہیں کہ سینکڑوں یا ہزاروں ملا زمین نے ہڑ تا ل کی ، دھر نا دیا ، حکومتی کام متا ثر ہوا ،ہڑ تالیوں کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا کہ مطا لبے کو منظور کیا جائے گا تجویز کے ساتھ اخباری ترا شے اور ہڑ تال یا دھر نے کی تصا ویر کو منسلک کر نا بھی ضروری خیال کیا جا تا ہے اس طرح بے چینی اور بد امنی پیدا کرنے والوں کی منطق یہ ہے کہ جب تک بچہ نہ روئے ماں اس کو دودھ نہیں پلا تی حا لانکہ اچھی ماں وہ ہو تی ہے جو بچے کو دودھ پلانے کیلئے اُس کے رونے کا انتظا ر نہ کرے جنر ل فضل حق اور جنرل افتخار حسین شاہ اپنی کا بینہ میں بھی ایک ’’ ٹربل شوٹر‘‘ ضرور رکھتے تھے اور بیو رو کریسی میں بھی ایسے لو گوں کو آگے لا تے تھے جو مسا ئل کو حل کرنے کے ما ہر ہوں ابھی بجٹ کے آنے میں کم ازکم 5ہفتے باقی ہیں اگر 5ہفتوں تک جلسے جلوس، ہڑتالیں اور دھر نے جاری رہے تو حکومت اور عوام دو نوں کا جینا دو بھر ہو جائے گا اس لئے دانش مندی اور دور اندیشی کا تقا ضا یہ ہے کہ بے چینی کومذاکرات کے ذریعے دور کیا جائے منیر نیا زی نے کسی خو شی اور مسرت کے لمحے میں یہ بات نہیں کہی بلکہ حسرت اور یا س کے عالم میں اپنی ایک بری عا دت کا اعتراف کیا ہے ؂
ہمیشہ دیر کردیتا ہو ں میں
کسی کو موت سے پہلے غم سے بچا نا ہو
حقیقت اورتھی کچھ ،اس کو جاکے یہ بتا نا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔