قاری عبدالرحمن قریشی !

 یہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے حسبِ معمول مدارس کی چھٹیاں ہو چکی تھیں، طلباء اپنے اپنے گاوں کی طرف عازم سفر تھے، کچھ تو اب تک اپنےاپنے گھروں میں پہنچ چکے تھے،اور کچھ سفر میں تھے، اُسی سال چترال موڑکہو وریجون میں جمعیت علماء اسلام چترال اور جمعیت طلباء اسلام کی مشترکہ کاوشوں سے ایک بڑے جلسے کا انعقاد ہونے جا رہا تھا، لوگ جوق در جوق موڑکہو کی طرف جا رہے تھے، میں بھی جلسے سے ایک دن پہلے چترال پہنچا، مسلسل سفر اور راستے کی تھکن سے بدن ٹوٹ رہا تھا، اور سر پھٹتا جا رہا تھا، کسی کنج تنہائی کی تلاش میں گھوم رہا تھا، تاکہ کچھ آرام کر سکوں، چترال کے پولو گراونڈ میں پولو کا کھیل جاری تھا، کچھ دیر کو سستانے کے لئے چنار کے درخت تلے بیٹھ کر پولو کا میچ دیکھا، کچھ ہی دیر بعد عصر کے قریب وہاں سے اٹھ کر تبلیغی مرکز کی طرف گیا، ایک تو گرمی اور اوپر سے بخار کی وجہ سے پیشانی سے بخار اور گرمی کا مشترکہ پسینہ چھوٹ رہا تھا، تھکا ماندہ عصر کی نماز مرکز میں پڑھی، دیکھا تو مسجد میں تبلیغی جماعت کا جوڑ تھا، کھانا سستا مل رہا تھا، شکم سیر کھانا کھانے کے بعد آرام کی نیت سے مسجد میں داخل ہوا، جماعت والوں کی ریل پیل جاری تھی ، یہ آیا،وہ چلا گیا، وہ دیکھو اس کونے میں ” مذاکرہ” چل رہا ہے ایک دوسرے کو بلا رہے ہیں، آوازیں ہی آوازیں اور شور ہی شور ہے، آرام و سکون کے لئے کوئی جگہ نہیں ملی،یہاں تک کہ عشاء کی نماز کے بعد مسجد کے کسی کونے میں بلا ارادہ و اختیار نیند کی آغوش میں جا چکا تھا، آنًا فانًا صبح ہوئی تھی، رات کیسے کٹی ،صبح کیسے ہوئی ،کچھ بھی نہیں پتہ چلا، اس وقت احساس کی شدتوں نے گھیر کر کہا کہ کاش ! کسی کے انتظار کی گھڑیاں بھی انہی لمحوں کی طرح گزرتیں۔ دیکھا تو فجر کی نماز کے لئے اقامت ہوچکی تھی وضو کر کے نماز پڑھی اور بغیر کسی چائے و ناشتہ کے چیو پل کی طرف نکل گیا، کیونکہ وہاں سے موڑکہو وریجون جانا تھا، جہاں آج کے دن اس جلسے سے مولانا فضل الرحمان صاحب نے خطاب کرنا تھا، چیوپل پہنچ کر انتظار کیا، اور یہ انتظار انتظار ہی رہا، کیونکہ موڑکہو کی طرف جانے والی ہر ایک گاڑی پر پرجوش نوجوانوں کا ایک جم غفیر بیٹھا ہوتا تھا، گاڑیوں کے اوپر نصب کردہ لاوڈ اسپیکروں سے نعت،نظم،اور پارٹی ترانوں کی آواز گونج رہی تھی، ہر کارکن اپنی دنیا میں مگن تھا۔ ہماری طرف کسی کی بھی نگاہ التفات نہیں گئی، صبح کے آٹھ بج گئے، مایوسی کے عالم میں پھر چترال بازار کا رخ کیا، گولدور چوک میں آیا تو ایک فلائنگ کوچ کھڑی تھی، چند ہی جماعتی افراد گاڑی کے اوپر پرچم نبوی باندھنے میں مصروف تھے، میرے اندر کی ہمت جاگ گئی اور گاڑی کے نکلنے کا وقت معلوم کیا، ساتھ کھڑے ساتھیوں نے بتایا کہ گاڑی قاری عبدالرحمن قریشی صاحب نے بک کر رکھی ہے ۔ بندے پورے، بلکہ ذیادہ ہیں ۔ ہم نے سوچا کہ ویسے بھی دیر تو ہوچکی ہے مزید تھوڑا اور انتظار کرنے میں کیا حرج ہے، تھوڑی دیر بعد قاری صاحب تشریف لائے،اور 9 بجے نکلنے کا کہہ کر بندوں کو گاڑی میں بٹھانے کا عمل شروع ہوا، تقریبا سب کے سب فارغ التحصیل علماء تھے، ہم دو بندے ہی پڑھنے والے طالب علم تھے وہیں میرے ساتھ بکرآباد کا ایک ساتھی مولانا ایوب صاحب بھی مل گئے تھے، جب مرحلہ ہم تک پہنچا اور ہمیں گاڑی میں بٹھانے کی باری آئی تو قاری صاحب نے خود ہی ہم سے دریافت کیا کہ آپ لوگ بھی موڑکہو جار ہے ہیں۔ ہم نے ہاں میں جواب دیا۔ بالآخر قاری صاحب نے ہمارے لئے کسی طرح سے جگہ نکالی، اور یوں ہم آخری سیٹ پر بیٹھ کر موڑکہو کے لئے روانہ ہوئے، اس دن قاری صاحب کے رویے اور حسن سلوک سے مجھے وہ سکون اور فرحت محسوس ہوئی، جو صحرا کی جلتی دھوپ میں پگھلنے کے بعد دشتوں کے مسافر کو اچانک گھنے چھاوں میں پہنچ کر ہوتی ہے ۔ میں نے اس سے قبل قاری عبدالرحمن قریشی صاحب کو نہیں دیکھا تھا، آج پہلی بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا، قاری صاحب نے راستے میں جابجا ریفرشمنٹ کا انتظام کیا، کھلی اور بلا تکلف گپ شپ ہوئی، طالب علموں سے فل کے بجائے آدھا کرایہ وصول کیا، اس دن مجھے قاری صاحب کے اخلاق،ان کی سادگی، اور حمیت کو قریب سے پرکھنے کا موقع ہاتھ آیا، معلوم ہوا کہ قاری صاحب ایک ظریف الطبع شخصیت، ایک باوقار عالم دین، بہترین قاری اور بہت ہی مشفق استاد ہیں ۔ ان کی زندگی ایک جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ 1980 میں جامعہ اشرفیہ میں درس نظامی کے لئے داخلہ لیا، 1988 میں ان کی فراغت ہوئی، 1991 میں چترال میں مدرسہ بنین ریحانکوٹ میں کام کا آغاز کیا، 1998 سے 2001 تک شاہی مسجد چترال میں شعبہ حفظ میں تدریس کا کام سر انجام دیا۔ 1997 میں مدرسہ تعلیم القرآن چمرکن کے نام سے چترال میں بنات کے مدرسے کا آغاز کیا، جو آج چترال میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا واحد معتمد ادارہ ہے۔ قاری صاحب ایک خود کفیل،بذلہ سنج،ہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں۔وہ گفتار کا غازی نہیں،بلکہ کردار کے آئینے کی بے داغ صورت ہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی جمعیت طلباء اسلام سے وابستہ رہے ہیں۔ فراغت کے بعد 1992سے اب تک چترال کے سیاسی افق پر موجود رہا ہے۔ اور کئی بار ضلعی جماعت کی کابینہ میں رہ کام کیا، 2013 میں چترال کے انٹرا پارٹی الیکشن میں سابق ایم پی اے مولانا عبدالرحمن کے مقابلے میں اکثریت کی رائے حاصل کر کے جمعیت علماء اسلام چترال کے متفقہ امیر بنے، اور بہت سی کامیابیاں سمیٹ کر آج تک اسی منصب پر شرف قبولیت کے ساتھ فائز ہے۔ 2015 کا بلدیاتی الیکشن جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر جیتا، وقتی طور پر پیش آنے والے بیرونی پروپیگینڈوں کو اپنی سیاسی بصیرت کے ساتھ حل کر کے جماعت کو کسی بھی نقصان سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا، آج اگر چترال میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت ہے تو اس کا ایک حد تک کریڈٹ قاری صاحب کو جاتا ہے۔ قاری صاحب ایک صلح جو شخصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے علاوہ دوسری پارٹیوں کے کارکن بھی ان سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں ۔ ان سب کے باوجود قاری صاحب ایک بہترین استاد ، مربی اور معلم بھی ہے۔چترال کے طول و عرض میں بلاشبہ سینکڑوں کیتعداد میں آپ کے شاگرد موجود ہیں۔ اس وقت چترال میں 24 اپریل کو انٹرا پارٹی الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ اس موقع پر ہم قاری صاحب کو ان کی پنج سالہ پارٹی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔