نظام حکومت نہیں بلکہ نظام کا مسلہ

………….اے۔ایم۔خان………
ریاست پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ کو دیکھا جائے تو پارلیمانی اور صدارتی نظام حکومت کے حوالے سے نہ صرف بحث ہو چُکی ہے بلکہ ایک مرتبہ صدارتی نظام حکومت، اور کم ازکم چارفوجی صدور کا تجربہ بھی ہم مختلف ادوار میں دیکھ چُکے ہیں۔۔ جنرل ایوب خان کے دور میں، گوکہ طریقہ انتخاب  (بی۔ڈی سسٹم) کی سیڑھی صدر کی انتخاب سے ختم ہوتی تھی، یہ تجربہ پاکستان کی تلخ تاریخ رہی۔ اِس نظام حکومت کو ختم کرنے کیلئے پی۔ڈیم۔ایم تحریک شروغ کرنی پڑی، اور اِس کے ختم ہونے کے دو سال بعد ہی ملک دولخت ہوئی جس کے کئی ایک وجوہات میں سے ’اختیارات کی مرکزیت‘ ایک اہم وجہ تھی۔
سیاسی نظام، چاہے پارلیمانی ہویا صدارتی، پر بات کرنا، اِس حوالے سے رائے عامہ تیار کرنا اور اِسے عوامی نقطہ نگاہ سے پرکھنے کا ایک ذریعہ جمہوری عمل ہے جوکہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ جب تک نظام کے حوالے سے جہاں (پارلیمنٹ) پہ بحث ہونا چاہیے وہاں کوئی ایسی بات ہی نہیں! دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ملک میں کوئی بھی ’قومی‘ پارٹی صدارتی نظام کو اپنے سیاسی منشور میں اب تک شامل نہیں کر چُکی ہے، اور نہ اِس پر پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں بحث ہوچُکی ہے۔ جب پارلیمنٹ نظام کی تبدیلی پر اتفاق رائے کرتا ہے، اور عوامی منظوری کیلئے آئینی عمل ،ریفرنڈم، کے بعد یہ تبدیلی کر سکتی ہے جسطرح چند سال پہلے سری لنکا اور ترکی میں ہوئی۔ اِس سے آگے ہم اِس بحث کو ایک بندے ، چاہے وہ صدر پاکستان کیوں نہ ہو، اُس کا ذاتی رائے سمجھنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں ہرپالیسی اور عمل کو اِسلامی نقطہ نگاہ سے پرکھنے کی روایت رہی ہے اِسی طرح صدارتی نظام حکومت کوبھی ’اِسلامی نظام‘ کے قریب نظام قرار دے کر اِس کی حمایت پیدا کرنے کی کوشش ہوچُکی ہے۔ مسلم لیگ کے ایک قرداد، جسمیں محمد علی جناح نے انڈیا میں ایسے پارلیمانی نظام کی مخالفت کی تھی جس میں جمہوریت کی آڑ میں اکثریت کی حکومت ہی رہتی ہے، کا حوالہ دے کر یہ باور کرانےکی کوشش بھی کی گئی کہ بانی پاکستان بھی پارلیمانی نظام کی حمایت میں نہیں تھا؟  گوکہ جناح امریکی نظام حکومت کے کچھہ خصوصیات کا ذکر تو کیا تھا لیکن پاکستان میں زمینی حقائق کو اُس وقت، اور اب بھی، دیکھا جائے اِس تبدیلی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پارلیمانی نظام کے حوالے سے ایک رائے عام یہ ہے کہ اِس نظام کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام کے قوی امکانات، کمزور اور مخلوط حکومت سے ترقی( سیاسی، معاشرتی) اور خصوصاً معاشی ترقی، سست روی کا شِکار ہوجاتی ہے۔ اِس بات پر صدارتی نظام پر چلنے والےملک امریکہ اور اُن ممالک کا مثال دیا جاتا ہے جہان معاشی ترقی ہو چُکی ہے جس میں سنگاپور کی مثال قابل ذکر رہی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ صدارتی نظام مستحکم ہونے کا ایک وجہ اختیارات کی مرکزیت ہے، اور ٹیکنوکریکٹ ٹیم پر مشتمل حکومت  ترقی کا ضامن ہوتی ہے؟ اِس سارے بحث میں جمہوریت کی بنیاد —عوامی منشا، کس حد تک قانون اور فیصلہ سازی میں شامل ہوتی ہے، کی کوئی بات نہیں ہوتی؟ اور ملک میں مذہبی،قومی اورعلاقائی تکثیریت، اور صوبائی خودمختاری کو وفاق میں کتنی مرکزیت حاصل ہوتی ہے، بھی اب تک زیر بحث نہیں آئی ہے۔  درحقیقت وفاقی نظام اور پاکستان جیسے تکثیری ملک میں صوبائی خودمختاری اور حکومت میں اقلیتی نمائندگی کی شُمُولیت اہمیت کا حامل ہےجوکہ پارلیمانی نظام میں بہتر موجود ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب جمہوری حکومت آئی تو کمزور اور اختیارات کی مرکزیت کا رجحان دیکھنے میں آیا، اور جن ادوار میں  فوجی حکومت بنے تو بھی اختیارات کی مرکزیت اور عوامی منشا کی قدر میں کمی دیکھنے میں آتی رہی۔
ایک بات ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ پاکستان میں اصل مسئلہ نظام حکومت نہیں بلکہ عقیدہ مساوات پر مبنی نظام کی ضرورت ہے۔ یہاں وہ روایتی نظام چلی آرہی ہے جس میں سیاست، سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما ایک مروجہ نظام کے مطابق چلی آرہی ہے۔ طبقاتی اجارہ داری اور گرفت یہاں اِتنی مضبوط ہے کہ یہاں کسی ’غیر‘ کا اِس دائرے میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ آزادی سے پہلے اب تک وہ ’چند سری‘ نظام حکومت ملک میں دوسری شکل میں رائج ہے جو ہروہ تبدیلی آنے نہیں دیتا جو اُن کے مفادات کے خلاف ہے۔اورجو حکومت کرتے ہیں وہ سیاست، اور جو سیاست کرتےہیں وہ حکومت۔
گزشتہ چند مہینوں سے پارلیمنٹ میں کوئی ایسی بحث دیکھنے میں نہیں آئی جس میں عوام کی اجتماعی بہتری اور ترقی پر بات ہو۔  سپریم کورٹ نے تعلیم اور صحت کے حوالے سے حکومت کی آئینی ذمہ داری دوبارہ یاد دلائی جو اِس سے پہلے دور حکومت میں بھی کی تھی۔ پارلیمنٹ، میڈیا، اور ہر فورم میں زیر بحث نیب اور وہ  چند لوگ ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اب تک عوامی مسائل کے حوالے سے نہ احتجاج کیا ہے اور نہ کوئی مثبت لائحہ عمل؟ کسے کیا معلوم عوامی مسائل کیا ہیں ،اُن کا حل کیا ہے، اور عوام کو کیا ملنا چاہیے۔
درحقیقت  پاکستان میں سیاست حکمران طبقے کا ایک سیاسی مقابلہ ہے جس میں پانچ سال بعد اُنہیں عوام یاد آجاتی ہے جب اُنہیں انتخاب کیلئے ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور انتخابی عمل کے دوران مذہب، نسل، قبیلہ/ قوم ، رشتہ داری ، پشت پناہی اور تعلق کے ذریعے تقسیم کرکے اپنا ووٹ لیا جاتا ہے۔ لہذا جو جمہوری عمل ملک میں چل رہی ہے اِسے چلنے دیا جائے، اور جو حٖضرات نظام حکومت کے حوالے سے پریشان ہیں اُنہیں روایتی سیاست، اسٹرکچرل مسائل، حقیقی جمہوریت، اور عوام کو حقیقی معنوں میں بااختیار بنانے پر کام کرنا ہوگا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔