نئے بلدیاتی نظام کا شوشہ ..

……….. تحریر:محکم الدین ایونی………

پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی کابینہ نے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل2019 کی منظوری دے دی ہے .جس کے تحت ضلع کونسل کا نظام ختم کرکے اس کی جگہ سٹی لوکل گورنمنٹ اور ضلع ناظم ختم کرکے مئیر کا عہدہ متعارف کیا گیا ہے .تاہم تحصیل کونسل اور ویلج کونسل بدستور برقرار رہیں گی .لیکن ان کے ناظمین چیرمین کہلائیں گے. مئیر سٹی لوکل گورنمنٹ اور چیرمین تحصیل کونسل کے انتخابات براہ راست اور جماعتی بنیادوں پر ہوں گے . جبکہ ویلج کونسل اور نائبر ہوڈ کونسلوں کے انتخابات پہلے کی طرح غیر جماعتی بنیادوں پرکئے جائیں گے . تمام ڈویژن ہیڈ کوارٹر میں سٹی لوکل گورنمنٹ بنائے جائیں گے . 33فیصد خواتین 5فیصد یوتھ اور اقلیتوں کا کوٹہ شامل ہوں گے . مقامی حکومتوں کو صوبائی ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد فراہم کیا جائے گا . نئی بلدیاتی ترمیمی بل کو صوبائی وزیر اطلاعات نے عوام کے مفاد کا بہترین بل قرار دیا ہے اور اس سے انتہائی مفید نتائج کی توقع کا اظہار کیا ہے . اسی طرح وزیراعلی خیبرپختونخوا نے اسے ایک بہترین نظام قرار دیتے ہوئے پورے صوبے بشمول ضم اضلاع میں اس کو نافذ کرنے کی بات کی ہے . لیکن لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے نئے نظام پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر مسترد کیا ہے . اور اس کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے . انہوں نے ضلعی نظام کے خاتمے کو آئین کے آرٹیکل 140اے شق32اور37کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسےچیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے .
پاکستان میں بلدیاتی نظام اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جو کھیلواڑ ہوتا رہا ہے . اس کی مثال دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتی . فوجی حکمرانوں نے اس نظام کے تحت عوام کی تائید حاصل کرکے ملک پر حکمرانی کے مزے لینے کی کوشش کی , لیکن جب انہیں آئینی طور پر خود کو محفوظ بنانے کیلئے اسمبلیوں کی ضرورت محسوس ہوئی . تو بلدیاتی نظام سے منہ موڑ کر اسمبلیوں کی آشیر باد حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے . اسی طرح سول حکومتوں نے اسے کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا . اور جب بھی بلدیاتی الیکشن ہوئے وہ اعلی ملکی عدلیہ کے حکم اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے بہ امر مجبوری منعقد کئے جاتے رہے ہیں . یہ بات مسلمہ ہے . کہ کوئی بھی نظام جو عوام کی بہتری کیلئے وجود میں لایا گیا ہو . برا نہیں ہوتا , بلکہ اس پر عملدر آمد کرنے والے اس کو اچھا اور برا بناتے ہیں . بلدیاتی نظام ایک بالکل سیدھا سادہ نظام ہے . جو گھر کی دہلیز پر عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا ہے . اور پوری دنیا میں یہ سسٹم پوری کامیابی سے عوام کو سہولیات فرام کرنے پر گامزن ہے . کیونکہ ان ممالک میں قانون سازی کرنے والے رکن پارلیمان کا کام گلی محلوں کو پختہ کرنا, بجلی ٹرانسفارمر کی تبدیلی ,پینے کے پانی کیلئے سو دوسو فٹ پائپ فراہم کرکے اگلے انتخابات کیلئے ووٹ کی توقع رکھنا نہیں ہے . بلکہ ان کا کام قوم کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا کر ملک کے لوگوں کے وسیع تر مفاد میں قانون سازی کرنا ہوتا ہے . جبکہ ہمارےملک میں جو کام بلدیاتی نمایندوں کا ہے . اسی کام کو ممبران اسمبلی اپنا استحقاق قرار دیتے ہیں . یوں بلدیاتی نمایندگان اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی میں کوئی خاص فرق نہیں پایا جاتا . اور اسی بنا پر بلدیاتی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے. یہ نظام تب ہی عوام کو ڈیلیور کر سکتا ہے . جبکہ ممبران اسمبلی کا کام قانون سازی تک محدود ہو . اور ممبران اسمبلی کو دیے جانے والے فنڈ بلدیاتی اداروں کے زیر نگرانی نچلی سطح پر مسائل کے حل پر خرچ کئےجائیں . پاکستان تحریک انصاف جو اپنے سابقہ صوبائی حکومت کےقیام کے ابتدائی دنوں میں بلدیات میں ویلج کونسل کا نظام متعارف کرتے ہوئے دعوی کیا تھا . کہ یہ ایک بہتریں نظام ہے . اس نئے نظام کے تحت ممبران اسمبلی کی بجائے براہ راست بلدیاتی اداروں کے ذریعے فنڈ خرچ کئے جائیں گے . ان کو ممبران اسمبلی کی طرف سے دباؤ کا اندازہ نہیں تھا . یا بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کا بہت گھمنڈ تھا .مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی بنا پر رول آف بزنس پر نظر ثانی کرنی پڑی تاکہ زیادہ فنڈ اور اختیارات مخالف پارٹیوں کے کامیاب شدہ ناظمین کے حصے میں نہ آئیں . بحرحال وجہ کوئی بھی ہو. تحریک انصاف کی حکومت کو خود اپنے دعووں کی نفی کرنی پڑی . اور ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے. انہوں نے انتخابات سے پہلے بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور بھاری فنڈ کی فراہمی کے دعوے کرکے عوام کے توقعات کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا . مگر جب ڈیلیور کرنے کا وقت آیا تو تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے . صوبے کی تاریخ میں گذشتہ بلدیاتی دورانیے میں ناظمین کو عوام کے سامنے جس طرح ذلیل و رسوا کیا گیا . اس کی مثال نہیں ملتی . حکومتی اداروں میں ناظمین کی بات سنی گئی نہ ضلع اور تحصیل کو نسل میں منظور کئے گئے قراردادوں پر عملدرآمد کیاگیا اور نہ ہی عوامی مسائل حل کرنے کیلئے ضلع و تحصیل اور ویلج کونسلوں کو مناسب فنڈ دیے گئے . اور جو قلیل فنڈ دیا گیا . اس کو ٹھیکہ داری سسٹم کےذریعے برباد کیا گیا . جس پر ناظمیں اپنے لئے کچھ کر سکے اور نہ عوامی مسائل حل کر نے میں کامیاب ہو سکے . اب پھر سے نئےبلدیاتی نظام کا شوشہ چھوڑا گیا ہے . جس کی صوبائی کابینہ کی طرف سے منظوری ہو چکی ہے . لیکن لگتا ایسا ہے . کہ اس کے بھی بہتر نتائج نہیں نکلیں گے . کیونکہ اس میں بھی عوام کے مفاد سے زیادہ اپنا سیاسی مفاد عزیز لگتا ہے . لیکن تحریک انصاف کی قیادت کو سمجھنےکی ضرورت ہے . کہ ان کا گراف اب عوام کی نظروں میں گر چکا ہے . اس لئے بلدیات کے پلیٹ فارم سے تحریک انصاف کو مستحکم کرنے کا خیال بالکل احمقانہ ہے . اگر واقعی عوام کیلئے کچھ کرنے کا ارادہ ہے . تو بلدیات کو پارٹی مفادات سے بالاتر رکھنے کے ساتھ ساتھ تمام ڈویلپمنٹ فنڈ بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کرنے ہوں گے . بصورت دیگر روز روز کے نئے نظام سے لوگوں کے مسائل کسی صورت حل نہیں ہوں گے.
ان خیال است و محال است و جنون.

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔