ترش و شیرین….کلاس فور اپائنٹمنس، جھگڑا کیا ہے؟؟

، نثار احمد ………….
 محکمہ ء تعلیم چترال میں ہونے والےحالیہ دنوں میں ہونے والے اپائنٹمنس کا مسئلہ ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا کی زینت بن کر سوشل میڈیا رسیدہ نجی محفلوں اور متعلقہ عوامی بیٹھکوں میں موضوع ِ سخن بن چکا ہے. یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے کہ ڈی ای او چترال کی شخصیت سوشل میڈیا میں ہدفِ تنقید بنی ہو اس سے پہلے بھی مختلف کرم فرماؤں کی طرف سے حسبِ موقع اِنہیں متنازعہ بناکر اپنے عہدے سے ہٹانے ، یا کم از کم اِن کی نیک نامی، معزز حیثیت اور اُجلی شخصیت کو داغدار بنانے کی مذموم سعی کی جاتی رہی ہے. بس جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے کے بمثل ڈی ای او چترال ان سارے بحرانوں سے بعافیت نکل کر سرخرو ہوتے آرہے ہیں. اسی طرح بعض قدآور سیاسی لیڈروں کی طرف سے بھی کلاس فور اپائنٹمنٹ ایشو کو بنیاد بناکر چائے کی پیالی میں سونامی برپا کرنے کی سخت کوشش کی گئی تاہم اُنہیں بھی اپنے مشن میں کامیابی نہیں ملی. کامیابی ملتی بھی کیسے اور کیوں؟، جب ڈی ای او پر لگائے گئے الزامات سر و پیر سے مکمل محروم اور اپاہچ ہوں . ظاہر ہے کہ ایسے بے سروپا الزامات کی اگر پبلک میں سُنوائی ہو بھی جائے، اربابِ بست و کشاد میں شُنوائی کسی طور نہیں ہوتی.
 اب تازہ واردات یہ سامنے آئی ہے کہ ایک ویڈیو بیان میں عیّاری و طرّاری سے متّصف برات خان نامی شخص ساکنہ بیوڑ کی طرف سے ڈی ای او چترال پر  اپائنٹمنٹ کے لئے بھاری رقم بمدِّ رشوت طلب کرنے کا الزام لگایا گیا ہے. پیسے لے کر مبینہ تقرّری کا اصل بھانڈا تو عدالت میں خلقِ خدا کی موجودگی میں قاضی کے سامنے ہی پُھوٹے گا تاہم تب تک کے لئے قارئین و متعلقین کے سامنے صورتحال کا دوسرا رخ رکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے. صورت حال کا ایک رُخ مذکورہ ویڈیو کی صورت میں سوشل میڈیا کے زریعے سب کے سامنے آ ہی چکا ہے. جس میں برات خان کا دعویٰ ہے کہ میری ملکیتی زمین پر سکول بننے کے باوجود مجھ سے ملازمت کے لئے پیسے طلب کئے گئے. پیسے دینے سے انکار کرنے پر دوسرے شخص سے پیسے لے کر اُسے ملازمت سے نوازا گیا. جبکہ صورت حال کا دوسرا اور جینوین رُخ یہ ہے کہ جہاں سکول بنا ہے وہ زمین برات خان کی پدری موروثی ملکیتی زمین ہی نہیں ہے بلکہ اِن کے ماموں کی ہے. دوسری بات یہ کہ ملازمت اُسی شخص کو ملی ہے جسے مالکِ زمین یعنی برات خان کے ماموں نے اسٹمپ پیپر لکھ کر دیا ہے.  یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ برات خان کے ماموں نے پہلے اسٹمپ پیپر پر لکھ کر ملازمت لینے کا استحقاق اِسے دیا بعدازاں اپنے ہاتھوں اُسے کینسل کرکے اسٹمپ پیپر لکھ کر اپنے ایک دوسرے عزیز کو حصولِ ملازمت کا استحقاق دے دیا. اب برات خان کا اصل جھگڑا اِن کا اپنے ماموں کے ساتھ بنتا ہے کہ اُس نے اِسے استحقاق ملازمت واپس لے کر اپنے دوسرے رشتہ دار کو کیوں سونپا؟ ظاہر ہے کہ قانونی طور پر مجاز اتھارٹی منسوخ شُدہ اسٹمپ پیپر کی بجائے مالک ِ زمین کی فریش رائے و منشا پر عملدرآمد کرنے کا ہی پابند ہوتا ہے. معاملے کو اُس مخصوص رُخ سے ہٹا کر ڈی ای او چترال کے خلاف موڑنا اور ڈی ای او کی ساکھ کو خراب کرنے کی شعوری کوشش کرنا نہ صرف بدنیتی پر مبنی انتہائی نیچ حرکت ہے بلکہ اِس سے یہ تاثر بھی بدیہی طور پر برآمد ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے منصوبہ ساز ماسٹر مائنڈ کوئی اور ہے. اگرچہ ویڈیو میں زبان برات خان کی چل رہی ہے لیکن الفاظ اس منصوبے کے تاروپود بُننے والے پردے کے پیچھے چُھپے منصوبہ سازوں کے معلوم ہوتے ہیں. یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی چاہیے کہ مجرمانہ زہنیت کے حامل ایسے افراد پر گہری نظر رکھیں جو بے بنیاد پروپیگنڈے کے زریعے نیک نام سرکاری اہلکاروں کی پگڑیاں اُچھال کر نہ صرف اُن کی عزت کے ساتھ سرِ سوشل میڈیا کھلواڑ کرتے ہیں بلکہ اُن کے فرائض منصبی کی ادائی میں بھی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں. یہ تو نِری بلیک میلنگ ہوئی ناں کہ خود کشی کی دھمکی دے کر مجاز اتھارٹی کو ڈرایاجائے. علی ہذا القیاس ملازمت کے حصول کے لئے خود کشی کی دھمکی دینے کا رواج چل پڑا تو پھر ہر کس و ناکس اُٹھے گا اور مجاز اتھارٹیز کو بلیک میل کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا.
 مالیخولیا کا شکار کسی بھی فرد کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ دو عشروں تک انتہائی زمہ داری اور دیانت کے ساتھ معّلمی کا پیغمبرانہ پیشہ نبھانے والے ایک محترم استاذ پر بیٹھے بیٹھے رشوت طلبی کا بھونڈا الزام لگائے. استاد بھی ایسا کہ اُس کی افتاد ِ طبع اور زہنی ساخت ہی اِن نیچ چیزوں سے میل نہیں کھاتی، جن کے مزاج سے واقف و شناسا حامی و مخالف برملا اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مالی کرپشن اور رشوت سے اِن کا اللہ واسطے کا بیر ہے.  بہرکیف ہمیں عدالتی کاروائی اور فیصلے کا انتظار ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے….
ایک طرف ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے بے تحاشہ مسئلے مسائل عوام و خواص کی توجہ کا مرکز بننے کے متقاضی ہیں اور دوسری طرف ہم اور ہمارے نمائندے ہیں کہ مہینوں سے مختلف محکموں میں کلاس فور اپائنٹمنس کے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں. اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے نمائندوں کو جینوین عوامی مسائل اور رئیل ایشوز کے بارے میں سوچنے، سمجھنے اور اُنہیں حل کرنے کے لئے کوشاں رہنے کے توفیق عطاء فرمائے…
یہاں سوشل میڈیا میں گروپ چلانے والے ایڈمنز کے کندھوں پر بھی بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کسی بھی قسم کے مواد کو معروضیت کی چھلنی سے گزارے بغیر شئیر نہ کریں. بالخصوص جب شایع کیے جانے والے مواد کی وجہ سے کسی کی عزت و آبرو پر زد پڑتی ہو تو وہاں انتہائی محتاط طرزِ عمل اپنانا پیشہ واریت کا بھی تقاضا ہے اور دیانت کا بھی..
بدقسمتی سے فیس بک کے گروپ ایڈمنز اس بابت انتہائی غفلت و جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں. صرف گروپ چلانا بڑی بات نہیں، بلکہ بڑی بات یہ ہے کہ گروپ میں زمہ داری کے ساتھ چیزیں شئر کی جائیں. اب اِسی برات خان کی ویڈیو اُسی کی وال پہ ہی رہتی تو اتنے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل نہ کر پاتی. لیکن فیس بک کے ایک گروپ نے جب اسے شئر کیا تو گزشتہ رات تک تقریباً سات ہزار بندوں تک مذکورہ ویڈیو پہنچ چکی تھی اور سو بندوں نے اُسے مزید شئر بھی کی ہے… جس معاشرے میں الزام اور ثابت شُدہ جرم میں فرق روا نہیں رکھا جاتا ہو وہاں ایسی الزام تراشی مزید گھناؤنی جرم بن جاتی ہے..
سوشل میڈیا میں چترال کے باقی گروپ ایڈمنز کو “چمرکھن گروپ” اور “قاقلشٹ گروپ” سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہیے.. باوجود قارئین کا بہت بڑا حلقہ رکھنے کے غیر مصدقہ مواد پوسٹ کر کے کر سنسنی خیزی پھیلاتے ہیں اور نہ ہی گروپ کی سستی مشہوری کے لئے اُلٹی سیدھی چیزیں پوسٹ کرتے ہیں..
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔