پولیو مہمات کا مستقبل
………………محمد شریف شکیب…………
پشاورکے سکولوں میں دس سال تک کی عمر کے بچوں کوپولیو سے بچاو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران شہر بھر میں یہ افواہ پھیلی کہ پولیو قطرے زائد المعیاد اور مضر صحت ہیں ۔قطرے پینے والے بچوں کو بخار، سر چکرانے اور قے کی شکایتیں ہورہی ہیں۔ مساجد میں اعلانات کئے گئے کہ جن بچوں نے سکولوں میں پولیو کے قطرے پیئے ہیں انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچاکر ان کی جانیں بچائی جائیں ۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک وڈیو وائرل ہوگئی ۔شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگ اپنے بچوں کو لے کر ہسپتالوں کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ پورے شہر کا نظام مفلوج ہوکر رہ گیا۔ لیڈی ریڈنگ، خیبر ٹیچنگ اور حیات آباد کمپلیکس کے علاوہ شہر کے درجنوں چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں چھ ہزار، خیبر ٹیچنگ میں دو ہزار، ایچ ایم سی میں ایک ہزار سے زیادہ بچوں کو لایاگیا، جبکہ نصیر ٹیچنگ ہسپتال ، مولوی جی، سٹی ہسپتال، چلڈرن ہسپتال سمیت شہر کے بی ایچ یوز میں بھی ہزاروں بچوں کو پہنچا دیا گیا۔ہسپتالوں میں عجیب و غریب صورتحال بن گئی۔ہر کوئی اپنے بچے کا علاج سب سے پہلے کرانا چاہتا تھا۔ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے ساتھ بھی بدتمیزی کے واقعات پیش آئے۔ مشتعل افراد نے ماشوخیل کے بنیادی صحت مرکز پر دھاوا بول کر ہسپتال کو آگ لگا دی ۔ایل آر ایچ انتظامیہ کے مطابق ہسپتال میں چھ ہزار بچے لائے گئے جن میں سے صرف تین سو بچے معمولی متاثر ہوئے تھے۔ طبی امداد فراہم کرکے تمام بچوں کو ہسپتالوں سے فارع کردیاگیا۔رات گئے تک یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ بڈھ بیر، متنی، درہ آدم خیل سمیت متعدد علاقوں میں زہریلے قطرے پینے سے سینکڑوں بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔ اس افواہ نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور گورنر شاہ فرمان نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔ہنگامی صورتحال کی وجہ سے پولیو مہم فوری طور پر روک دی گئی۔وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ اور وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے انسداد پولیو بابر عطا ء کو ہنگامی پریس کانفرنس کرنی پڑی اور انہوں نے خود بھی پولیو سے بچاو کے قطرے پی کر عوام کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ خطرے والی کوئی بات نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک بھرمیں 4 کروڑ بچوں کو ویکسین دی جا رہی تھی۔صرف ماشوخیل اور مضافات میں قطرے پینے کا ری ایکشن کیسے ہوا۔ وزیرصحت نے یقین دہانی کرائی کہ اگر ویکسین میں کسی قسم کا نقص پایا گیا تو سخت ایکشن لوں گا۔ضلعی انتظامیہ کا بھی کہنا تھا کہ پشاور کے 3400 سکولوں میں پولیو کے قطرے پلائے گئے۔صرف دو تین سکولوں سے ایسی افواہیں پھیلی ہیں ۔اس صورتحال کے بعد جنوبی اضلاع میں پولیو ٹیم کی سیکورٹی پر مامور ایک سرکاری اہلکار کو قتل کیا گیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی جان کے لالے پڑنے کی وجہ سے آئندہ پولیو مہم میں شرکت کرنے اور سیکورٹی ادارے بھی پولیو ٹیموں کو تحفظ فراہم کرنے سے سردست ہچکچا رہے ہیں جو کافی تشویش ناک صورتحال ہے۔حکام کا دعویٰ ہے کہ پولیو مہم کے خلاف افواہیں پھیلاکر شہر میں خوف و ہراس پیدا کرنے والے چند افراد پکڑے گئے ہیں۔ جس سکول سے یہ افواہ پھیلی اس کا پرنسپل بھی انکاری والدین میں شامل ہے۔پولیو کے قطرے عالمی ادارہ صحت کی تصدیق کے بعد پوری دنیا میں بچوں کو پلائے جاتے ہیں تاکہ بچوں کوزندگی بھر کے لئے معذور کرنے والے مرض سے بچایا جاسکے۔ تاہم پاکستان میں بدقسمتی سے پولیو مہم کے خلاف ایک لابی طویل عرصے سے متحرک ہے۔اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانے کی حد تک بات قابل برداشت تھی لیکن پورے شہر میں گمراہ کن افواہ پھیلا کر ہنگامی صورتحال پیدا کرنا انتہائی سنگین اور ناقابل معافی جرم ہے۔ پشاور میں پیش آنے والے واقعے سے نہ صرف ملک کی بدنامی ہوئی ہے بلکہ پولیو مہمات کا مستقبل بھی خطرے میں پڑگیا ہے۔ملک اور قوم کے خلاف اس گہری اور منظم سازش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں ، خفیہ ایجنسیوں ، سکول کے اساتذہ، میڈیا،سول سوسائٹی اور علمائے کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔صوبائی حکومت، محکمہ صحت اور پولیو کے خلاف برسرپیکار سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو سازش کرنے والے کرداروں کو عوام کے سامنے لانا چاہئے ۔تاکہ آئندہ کسی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے قوم کے بچوں کی صحت سے کھیلنے کی جرات نہ ہو۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں