صد ا بصحرا……ڈان لیکس اور ایران لیکس

سیاستدانوں اور تجز یہ کاروں کے درمیان اس بات پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے کہ ڈان لیکس اور ایران لیکس میں کیا فرق ہے؟ ایک وزیر اعظم نے 2016 ء میں اپنے دفتر میں بیٹھ کر کہا تھا کہ ہمیں پاکستان میں دہشت گردی کی سر پر ستی نہیں کر نی چاہیے دوسرے وزیر اعظم نے اپر یل 2019 ء میں ایران جا کر ایرانی صدر کے ہمراہ مشترکہ پر یس کا نفر نس میں کہا کہ ہم نے دہشت گردوں کی سر پر ستی کی ہے علا مہ اقبال نے شا ید اس کو مُلا کی اذان اور مجا ہد کی اذان کے فرق سے واضح کیا ہے
الفاظ و معافی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلا کی اذان اور ہے مجا ہد کی اذان اور
اپنے دفتر میں اذان دینے والا مُلا کہلاتا ہے پڑوسی ملک جا کر اذان دینے والا مجا ہد کہلا تا ہے آج کل وزیر اعظم عمر ان خان کی تقر یر کا ایک اور جملہ سوشل میڈیا میں گر دش کر تے کر تے آسمان کو چھو نے لگا ہے انہوں کے ضلع مہمند میں تقر یر کر تے ہو ئے کہا ”منظور پشتین کی باتیں ٹھیک ہیں ان کا لہجہ درست نہیں“ یہی بات اگر سابق وزیر اعظم کہتا تو غدار ٹھہر ایا جاتا کیو نکہ وہ ملا تھا کبھی کبھار ہمارے ہر دل عزیز وزیر اعظم بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کی با ت کر تے ہیں کر تار پور راہد اری اور مندر کے راستے کھولنے پر فخر کر تے ہیں تو ہمیں وہ دن یاد آتے ہیں جب پڑو سی ملک کا نام لینے پر ہمارے ایک وزیر اعظم کو ”مو دی کا یار“ قر ار دیا جاتا تھا شاید یہاں شاہین اور کر گس کا فرق ہے شاعر مشرق نے فطر ت کی عکاسی کر تے ہو ئے کہا تھا
ہے پرواز دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کی جہاں اور ہے شاہین کا جہان اور
کسی بھی ملک کا صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور کسی بھی حکومت کا کوئی بھی مہذب وزیر جس زبان میں بات کر تا ہے اس کو سفارتی اور دفتر ی زبان کہا جاتا ہے اس کے مقابلے میں بازاری زبان ہے جو مخا لفین کو نیچا دکھا نے اور اپنا اُلو سید ھا کر نے کے لئے لا ری اڈوں کے منشی، بازار کے آڑھتی اور نو آمو ز سیاسی ورکر اپنی تقر یروں میں استعما ل کر تے ہیں مثلا ً گند ھے کپڑے گھر میں دھو نے کا طعنہ، پا جا مہ گیلی ہو نے کی پھبتی،چوری ڈکیتی کے الزامات، شہد کی بوتل والے بہتا نات اور مرد کو عورت کہنے کی گفتگو بازاری زبان کہلا تی ہے آدمی کے کند ھے پر ذمہ داری نہ ہو، بند ے کو مو اخذ ے کا ڈر نہ ہو یا بند ے کا اپنا کوئی پس منظر نہ ہو تو وہ کچھ بھی کہہ دیتا ہے کر نل محمد خان لکھتا ہے کہ برٹش فوج میں کمیشن لینے کے بعد میر ے گھر میں خو شی کے شا د یا نے بجا ئے گئے مگر مجھے دو طرح کی آز ادیو ں کے چھن جانے کا بیحد قلق ہوا فوجی افیسر بننے کے بعد میں پہلے کی طرح ہر بات زبان پر نہیں لا سکتا تھا راہ چلتے ہو ئے کبا بی یا پکو ڑے والے کی دکان پر کھڑا ہو کر کبا ب یا پکوڑا نہیں کھا سکتا تھا میر ے منصب کے یہ شایان شان نہ تھا یہ بات اخبارات میں آچکی ہے کہ اکتو بر 1990 ء میں دیوار برلن گرائے جا نے کے بعد امریکی صدر جارج بُش سینئر نے جر منی کا دورہ کیا اس موقع کے لئے اس کی 7 منٹ تقر یر کو تین ما ہ پہلے 15 ما ہر ین کی ٹیم سے لکھو ایا گیا سینیٹ اور کانگریس کی کمیٹیو ں سے منظو ر کر ایا گیا دفتر خارجہ اور وائٹ ہا ؤس کے حکام نے تین جملوں پر سرخ لکیر کھینچ دیا اور 5 ما ہر ین کی ٹیم کو صدر کے ہمراہ برلن بھیجا ان کے ذمے یہ کام لگا یا گیا کہ تقر یر کے وقت سے دو گھنٹے پہلے حالات حاضر ہ کی روشنی میں ان جملوں کے لئے مناسب الفاظ اور تراکیب چُن لئے جائیں چنا نچہ ایسا ہی ہوا اور یہ سفارتی اداب کے ساتھ ساتھ ملکی مفاد کا بھی تقاضا تھا ایسا نہ ہوتا تو صدر ایک غلط بات کہہ دیتے اور اگلے دوچار مہینوں تک کا بینہ کے وزراء اس کے دفاع میں تا ویلیں لا تے رہتے کوئی کہتا صدر کے بیان کو توڑ مر وڑ کر پیش کیا گیا کوئی کہتا صدر کی تقر یر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دکھا یا گیا کوئی کہتا کہ ”ہمارا صدر پر چی والا نہیں جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے“غر ض جتنے منہ اتنی باتیں ہو تیں لیکن وہ لو گ سیاسی اداب کو جا نتے ہیں اور اپنے لیڈر کی ہر بات کا خیال رکھتے ہیں قدیم یو نا ن کی جنگیں بہت مشہور ہیں ان جنگو ں کا فاتح لوٹ کرسپارٹا آتا تو اپنے ہیر و کا استقبال کر تے ہو ئے لوگ اُس پر پھول نچھاور کر تے اور ایک بزرگ کی ڈیوٹی لگا تے وہ ہیرو کے ساتھ ساتھ رہتا اور اُس سے بار بار کہتا ”یاد رکھو تم دیو تا نہیں ہو انسان ہو تم سے غلطی بھی ہو سکتی ہے“ سپارٹا کا یہ بزرگ آج کا تقر یر نو یس ہو سکتا ہے فیلڈ مارشل ایوب خا ن نے قدر ت اللہ شہباب، الطاف گو ہر اور ممتا ز مفتی کو تقر یر نو یس رکھا تھا کیو نکہ حکمر ان جو بولتا ہے وہ تاریخ کا حصہ بنتا ہے اُ س کی اُلٹی سیدھی تاویل نہیں ہوسکتی اُس پر غالب کی طرح عذر بھی پیش نہیں کیا جا سکتا
فرشتوں کے لکھے پہ پکڑ ے جاتے ہیں نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا!
ڈان لیکس اور ایران لیکس میں زمین آسماں کا فرق ہے ایک نے اپنے دفتر میں بیٹھ کے قریبی ساتھیوں کے سامنے گفتگو کی دوسرے نے پڑوسی ملک کے سربراہ مملکت کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں راز کی بات اُگل دی یہ موقع ایسا تھا جب دفتر خارجہ کے سینئر حکام کی طرف سے ایک ایک لفظ چُن کر لکھی ہوئی تقریر پڑھی جاتی ہے شکر ہے اُوپر والوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک ہیں بات بات پرپکڑ دھکڑ کا خوف نہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔