صد ابصحرا ….افواہ سازی کی صنعت

انور مسعو د کا قول ہے کہ پاکستانیوں کو جب تک کھو تے اور دھو کے کا پتہ چل جاتا ہے تب تک وہ اُسے کھا چکے ہو تے ہیں ہمارے ہا ں افواہوں کا بھی ایسا ہی حال ہے جب تک کسی افواہ کی اصلیت کا پتہ چل جاتا ہے تب تک ہم افواہ کے بل بوتے پر نقصان اُٹھا چکے ہو تے ہیں اس لئے قرآن و حدیث میں تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ سُنی سنائی باتوں پر مت جا ؤ زمانہ رنگ بدلتا ہے تو سنی سنا ئی باتوں کی جگہ دیکھی دکھا ئی اور پڑھی پڑھا ئی باتیں لے لیتی ہیں پہلے زمانے میں افواہیں زبانی پھیلا ئی جا تی تھیں نئے دور میں افواہیں ٹی وی سکرین پر، فیس بُک کی پوسٹوں میں اور اخبارات کی سر خیوں میں پھیلا ئی جاتی ہیں جن کو سُنی سنا ئی کہہ کر مسترد کر نا مشکل ہو تا ہے آپ آدھ گھنٹہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دوچار چینل بدل کر دیکھیں، آدھ گھنٹہ کے لئے فیس بُک کھو لیں یا ٹو ئیٹر پر جا کر تما شا کریں آپ کوایسی بے بنیاد باتوں میں اُلجھا یا جاتا ہے جو اپنا وجو د ہی نہیں رکھتیں جو ں ایلیا کی غز ل کا مطلع ہے
نہیں بنیاد کی کوئی بنیاد
یہی با با الف کا ہے ارشاد
ایک ہی شام8 بجے سے 9 بجے تک آنے والی خبروں اور تبصروں پر غور کیا جائے تو سرچکر اجاتا ہے ایک چینل پر یہ بات زیر غو ر ہے کہ نواز شریف کی ضمانت میں تو سیع ہو گی یا نہیں، دوسرے چینل پر بحث ہو رہی ہے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ جا ئے گا یا نہیں ایک اور چینل یہ شوشہ چھوڑ تا ہے کہ روان ہفتے زرداری کے مز ید کتنے ساتھی اور دوست یا مد د گار پکڑ ے جا ئینگے ایک چینل سب پر سبقت لے جاتا ہے اور دور کی کوڑی لا تے ہو ئے خبر دیتا ہے کہ صدارتی نظام کے لئے ریفر نڈم ہو گا ان باتوں سے آپ پوری طرح پریشاں ہو چکے ہو تے ہیں پھر بھی آپ کو مزید الجھنوں میں ڈالنے کے لئے ایک چینل اٹھا رویں تریم کو ختم کر نے کی خبر اُٹھا لاتا ہے اس پر وہ بحث ہو تی ہے کہ خدا دے اور بند ہ لے یہ سلسلہ ابھی ختم ہو نے میں نہیں آیا معا ً دوسر ے چینل پر شیخ رشید کے فر مودات آجا تے ہیں کہ کوئی فنی خرابی نہ ہو تو مسٹر بلا ول کو صاحبہ کہنے میں کوئی حر ج نہیں ابھی اس بات کی گرد نہیں بیٹھی کہ دوسری خبر آجاتی ہے بیجنگ ائیر پورٹ پر میو نسپل کمیٹی کی سکرٹر ی کے ذریعے ہمارے وزیر اعظم کا استقبال کر واکر پاکستا نی قوم کی توہین کی گئی ایک دل جلے نے کہا اگر تو ہین ہو ئی تو آپ کیا کر ینگے؟ کیا چین کو امداد دینا بند کر ینگے؟ یہ چند افواہیں ایسی تھیں جو ایک ہی دن ایک گھنٹے کے اندر سماعتوں سے ٹکرا ئیں اور نظر وں سے گذر یں پھر ہم نے دو افواہوں کا پیچھا کیا صدارتی نظام لا نا کو ن چاہتا ہے؟ یہ کس کا شوق ہے؟ کس کا مفاد اس میں پو شید ہ ہے؟ افواہ سازی کی صنعت سے تعلق رکھنے والوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ بقول مولا نا فضل الرحمن صدارتی نظام کے عشق میں مبتلا ہو نے والوں میں ٹا پ پر جو شخص ہے اس کو ”نکے دی ابا“ کہا جاتا ہے وزیراعظم عمران خان کو یہ باور کر ایا گیا ہے کہ براہ راست انتخابات میں آپ کو ملک کا صدر منتخب کر ایا جائے گا تیرے مقابلے پر ڈاکٹر اے کیو خان آئے یا جنر ل مشرف آئے شکست اس کا مقدر ٹھہر ے گی نواز شریف، زرداری وغیر ہ کو پہلے ہی دن مقابلے سے آؤٹ کیا جا ئے صدر بننے کے بعد قومی اسمبلی میں 4 سیٹوں کی اکثر یت کے ادھر اُدھر ہو نے کا خوف نہیں رہے گا آر ڈیننس کے ذریعے قانون سازی ہو گی اوپر والوں کی مرضی سے کا بینہ بنا ئی جائے گی پارلیمنٹ، رکن اسمبلی، منتخب اور غیر منتخب کا کوئی غم اور کھٹکا نہیں رہے گا فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنر ل مشرف کی طرح ایک فرد کی حکومت ہو گی موجاں ہی مو جاں! افواہ سازی کی صنعت سے جب یہ افواہ نکلی تو بازار میں اس کو ہاتھوں ہا تھ لیا گیا اسی طرح اٹھا رویں ترمیم کے خاتمے کی افواہ بھی مارکیٹ میں مقبولیت حاصل کر چکی ہے اس افواہ میں صداقت کے کئی پہلو ڈھو نڈ ے جا رہے ہیں مثلا ً ایک تجز یہ کار کہتا ہے کہ اٹھا رویں ترمیم نے صو بوں کو اختیا رات منتقل کئے،کنکرنٹ لسٹ کو ختم کیا صوبے اپنی ترجیحات میں تعلیم اور صحت کو اولیت دیتے ہیں یہ بات اوپر والوں کو بہت بُری لگتی ہے کیو نکہ قوم کا مستقبل تعلیم اور صحت سے وابستہ نہیں صرف سیکیورٹی سے وابستہ ہے اس لئے کسی بھی قیمت پر کنکرنٹ لسٹ کو بحال کر کے صوبوں کو واپس اسی تھا ن پر لیجا نا ہے جس تھان پر پہلے انکو با ند ھ دیا گیا تھا مضبوط مر کز کے بغیر ملک اور قوم کا تصور نا ممکن ہے اوپر والے اس کو برداشت نہیں کر سکتے شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکا ت میں اور کوئی خراابی نہیں تھی ان میں صوبوں کو اختیارات دینے کا ذکر تھا اس لئے قوم نے ملک کے ایک صوبے کی قربانی دے کر شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات کو ناکام بنا دیا اورحمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو بحیر ہ عرب میں پھینک دیا افواہ سازی کی صنعت اس قسم کے بے سر وپا افواہوں کے ذریعے قوم کو گمراہ کرتی ہے ہماری مارکیٹ بھی افواہ سازوں کو سپورٹ کر تی ہے افواہوں پر ٹی وی چینیلوں کو دھڑ ا دھڑ اشتہارات ملتے ہیں تعلیم، صحت، معیشت، تجارت، صنعت و حرفت، ادب اور ثقافت پر گفتگو ہو تو ایک آنہ پائی کا اشتہار نہیں ملتا ایشو سامنے ہو تو کوئی پسند نہیں کرتا نا ن ایشو کو لے لیا جائے تو سب واہ واہ کر تے ہیں ٹو ئیٹر اور فیس بُک پر مثبت اور سچی بات مقبول نہیں ہو تی جھوٹی افواہ ”ٹاپ ٹر ینڈ“ بن جاتی ہے آج کل کے دور میں وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو شیکسپیئر کی نظم کو سر مایہ حیات بنا کر دور جنگل میں جا کر بیٹھے ہیں نہ ریڈ یو، نہ اخبار، نہ ٹی وی نہ فیس بُک نہ ٹو ئیٹر نہ سماجی را بطے کا کوئی اور ذریعہ بقول شاعر ؎
رہیے ایسی جگہ جاکر جہاں کوئی نہ ہو
ہم نوا کوئی نہ ہو ہم زباں کوئی نہ ہو

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔