داد بیداد …..قو می اسمبلی کی ازمائش

سود کے خا تمے کا بل قو می اسمبلی میں پیش ہوا یہ بل مو لا نا عبد لاکبر چترالی نے پیش کیا ہے وزیر قا نون فروغ نسیم نے بل کی مخا لفت نہیں کی قواعد و ضوا بط کے مطا بق بل کو قائمہ کمیٹی میں غور خوض کے لئے بھیجنے کی سفا رش کی چنا نچہ بل قائمہ کمیٹی کو بھیجدی گئی اب یہ قو می اسمبلی کی ازما ئش ہے کہ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں یہ بل کتنا وقت لیتاہے؟ اور قائمہ کمیٹی کی طرف سے ایوان میں پیش ہونے کے بعد ایوان کتنے ووٹوں کی اکثریت سے اس کو منظور کر تی ہے؟ مارچ 2014میں قو می اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے پا کستانی زبانوں کی تر قی کا بل اتفاق رائے سے منظور کیا تھا لیکن مئی 2018ء میں اسمبلی تحلیل ہونے تک اس بل کو ایواں میں پیش نہیں کیا گیا کیونکہ اوپر والوں نے بل کو پیش کرنے کی اجا زت نہیں دی اگر بل کو پیش کیا جا تا تو حکمران جما عت کے پاس بل منظور کرنے کے لئے مطلوبہ اکثریت مو جود تھی مگر ایسا نہیں ہوا مو جو دہ بل کے دن اسمبلی کا اجلا س شروع ہوا تو سپیکر نے رکن اسمبلی مو لا نا عبد الاکبر چترالی کو بل پیش کرنے کی دعوت دی رکن اسمبلی نے سود کے خا تمے کا تر میمی بل 2019مر وجہ الفاظ میں پیش کیا اس کے بعد سپیکر نے مو لانا کو بل کے پس منظر اور اس کی ضرورت و افا دیت پر بولنے کی دعوت دی مو لا نا عبدلاکبر چترالی نے بل کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ پا کستان ایک نظر یاتی مملکت ہے اس کا قیام اسلام کی بنیا د پر عمل میں آیا ہے اسلام میں سود کی صریح اور وا ضح مما نعت آئی ہے سود کو شراب اور خنزیر کے گوشت کی طرح حرام قرار دیا گیا ہے آیت کریمہ کا ترجمہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے تجا رت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے دوسری آیت میں آ یا ہے کہ اگر تم لو گ سودی لین دین سے باز نہیں آتے تو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ مدینہ منورہ کی اسلامی ریا ست میں سب سے پہلے سود کا خا تمہ کیا گیا بل کا تعارف کراتے ہوئے محرک نے کہا کہ اس بل کے ذریعے بینکنگ اور تجا رت کے 28قوا نین میں ترا میم تجویز کی گئی ہیں اس کی افا دیت و اہمیت یہ ہے کہ پا کستان پر قر ضوں کا بوجھ اتر جائے گا 10سالوں کے اندر پورمعیشت اسلامی خطوط پر استوار ہو گی دیگر اقوام کے ساتھ اسلامی قوانین کے تحت لین دین ہو گا اور ریا ست مدینہ کے احیاء کی طرف یہ ہماری حکومت کا پہلا قدم ہو گا محرک کی بات میں وزن ہے سود کے خا تمے اور اسلامی بینکاری کے مو ضوع پر دور حا ضر میں بہت کا م ہو ا ہے اسلامی تر قیا تی بینک نے اسلا مک فنا نس کا مستقل شعبہ قائم کیا ہے شیخ حماد بن خلیفہ یو نیور سٹی قطر میں اسلا مک فنا نس پر ڈاکٹر یٹ کی ڈگری دی جا تی ہے منہاج القرآن یو نیور سٹی لا ہور میں اسلامک فنا نس کا با قاعدہ شعبہ قائم کیا گیا ہے اسلامی نظر یا تی کو نسل کی سفا رشا ت مو جود ہیں دنیا کے کئی مما لک نے اسلا مک فنا نس کو آئینی حیثیت دیدی ہے سو ڈان اور لیبیا میں سود سے پاک معیشت پر کامیا بی کے ساتھ عمل ہو رہا ہے غیر وں کے ساتھ لین دین بھی اسلا مک فنا نس کے اصو لوں پر ہو رہا ہے عالمی تجا رت کا اصول یہ ہے کہ تم رہنما بن جا ؤ تو دوسری قو میں تمہاری اطا عت کر تی ہیں تم خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑو دو تو وہ بھیڑ بکریوں کی طرح تمہیں ہانک کر جد ھر چا ہیں لے جا تی ہیں بد قسمتی سے پاکستان میں اسلامی بینکا ری کے جتنے تجربے کے گئے ان میں سود کا خا تمہ نہیں کیا گیا بلکہ سود کو کرایہ، سروس چارچ اور دیگر خوشنما نام دے دیے گئے سود پر ایک لاکھ روپے کا قرضہ لیا جا تاہے تو ایک لا کھ 20ہزار کی ادائیگی کر نی پڑ تی ہے کرایہ اور سروس چارج کے نا م سے ایک لاکھ روپے پر 55ہزار روپے کا سود لیا جا تا ہے سود درسود کے حساب سے یہ رقم گیا رہ لا کھ تک جا پہنچتی ہے اور قرض لینے والے کا گھر نیلا م ہو جا تا ہے اسلا م سے پہلے عرب کے یہو دی سا ہو کا ر یہ کام کرتے تھے قیا م پا کستان سے پہلے ہندو مہا جن اور بَنیااس طرح کا لین دین کر تا تھا قیا م پا کستان کے بعد یہ کام حکومت نے سنبھال لیا اب سارا سودی لین دین یہو دی سا ہو کار یا ہندو بَنیانہیں کر تا بلکہ حکومت نے یہ کا م اپنے ذمے لیا ہو ا ہے اس وقت دنیا میں 200ما لیا تی ادارے سو د سے پاک لین دین کر رہے ہیں خیبر پختونخوا میں ایک بینک نے 2005میں بلا سود بنکا ری کی 4شا خیں کھو لی تھیں اب ان کی تعداد 72ہو گئی ہے اس مثال سے ثا بت ہو تا ہے کہ کھا تہ دار بلا سود بنکا ری کو پسند کر تے ہیں یہ قو می اسمبلی اور اس کی قائمہ کمیٹی کے لئے آزما ئش کی گھڑی ہے کہ مملکت خدا داد پا کستان میں سو دی لین دین کو ختم کرنے کے بل کی منظور ی دے کر سر خروہو تی ہے یا اس بل کو سر د خانے میں ڈال کر اپنی مدت پو ری کر کے اوپر وا لوں کو سر خرو کر تی ہے نیز اپنے با اختیار ہونے کا ثبو ت دیتی ہے یا خود کو شطرنج کے مہرے کی طرح بے جان ہاتھی، بے جان گھوڑا اور بے جان باد شاہ ثا بت کر تی ہے پشتو میں کہتے ہیں ”دا گز دا میدان“

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔