بونی میں قائم عمارت چترال یونیورسٹی کی ملکیت ہے،بعض اخبارت اور سوشل میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں حقائق کے خلاف ہے۔پبلک ریلیشنز افیسر

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس) گزشتہ دنوں یونیورسٹی آف چترال اور محکمہ تعلیم کے درمیان بونی میں ایک بلڈنگ کے تنازعے کے بارے میں بعض اخبارات اور سوشل میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کو بے بنیاد، بدنیتی پر مبنی اور حقائق کے خلاف قرار دیتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے موقف کو دہرادی ہے کہ یہ عمارت چترال یونیورسٹی کی ملکیت ہے۔ یونیورسٹی آف چترال کے پبلک ریلیشنز آفیسر شکیل حسین کی دفترسے جاری شدہ پریس ریلیز میں کہاگیاہے کہ مذکورہ خبروں میں حقائق کو مروڑ کر پیش کیاگیاہے جبکہ حقائق کے مطابق حکومت صوبہ خیبرپختونخواہ نے اپریل 2017میں ایک سرکاری اعلامیے کے ذریعے چترال میں موجود عبدالولی خان یونیورسٹی اور شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے ذیلی کیمپسز کو ضم کرکے جامعہ چترال کی بنیاد رکھی۔ اس اعلامیے پر عملدرآمد کرتے ہوئے مذکورہ دونوں جامعات نے ضلع چترال کے اندر اپنے تمام اثاثہ جات بشمول تمام منقولہ و غیرمنقولہ جائیدادیں جامعہ چترال کے حوالے کیں جن میں شہید بے نظیربھٹو کی بونی میں قائم ذیلی کیمپس کی عمارت بھی شامل ہے۔ جامعہ چترال نے چارج سنبھالتے ہی مذکورہ عمارت میں کثیرالمقاصد تحقیقاتی مرکزقائم کرنے کا فیصلہ کیاتاکہ بالائی چترال سے تعلق رکھنے والے تحقیق سے وابستہ طلبہ و طالبات استفادہ کرسکیں۔تاہم مستقبل قریب میں جامعہ چترال اپنے طویل مدتی منصوبوں کے تحت آس پاس کی اراضی خرید کر وہاں ذیلی کیمپس بنانے جاررہاہے۔
پریس ریلیز کے مطابق چارج سنبھالنے کے کافی عرصے بعد ڈی ای او زنانہ نے ایک مراسلے کے ذریعے جامعہ چترال سے مذکورہ عمارت ان کے حوالے کرنی کی استدعاکی جس میں واضح الفاظ میں کہاگیاہے کہ یہ عمارت غالباً (یقینانہیں) ان کے محکمے کی ہے۔ تاہم مذکورہ محکمے نے نہ اسے شہیدبینظیر بھٹویونیورسٹی کے حوالہ کئے جاتے وقت 2012میں کوئی اعتراض اٹھایا اور نہ ہی شہید بے نظیربھٹو یونیورسٹی کی جانب سے جامعہ چترال کو حوالے ہوتے وقت۔ جس پر جامعہ چترال نے واضح کردیاکہ مذکورہ عمارت جامعہ کو باقاعدہ سرکاری طریقے سے حوالہ کیاگیاہے۔تاہم علاقے کے چندزعماکے بقول مذکورہ بلڈنگ کو عالمی بنک نے سی بی ایس کے طور پر تعمیر کیاتھااور زمین خریدنے کی بجائے مالک زمین کو نوکری دینے کا عہد ہواتھا۔ اسی بناپر شہیدبینظیر بھٹویونیورسٹی نے مالک زمین کرم علی کونائب قاصد بھرتی کیاتھا اورمذکورہ بندہ 2012سے جون 2017تک شہید بے نظیر بھٹویونیورسٹی سے تنخواہ لیتارہاہے اور یکم جولائی سے2017 سے تاحال جامعہ چترال کے پیرول پرمذکورہ عمارت میں فرائض انجام دے رہاہے۔
پریس ریلیز میں مزید کہاگیاہے کہ پچھلے دنوں ڈپٹی کمشنرچترال کے دفتر میں مذکورہ عمارت کے حوالے سے میٹنگ بھی ہوئی تھی اور اس سلسلے میں خط و کتابت جاری تھے کہ درین اثناء جامعہ چترال کو اطلاع ملی کہ ایس ڈی ای او زنانہ نے علاقے کے چند مہم جوافراد کوورغلاکرجامعہ چترال کے تالے توڑ کرمذکورہ عمارت پرغیرقانونی قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے۔چونکہ مسئلے کی نوعیت انتظامی اور قانونی تھی اس لئے جامعہ چترال کی انتظامیہ نے Admin Officer اور Litigation Officerپر مشتمل ٹیم تشکیل دے کربونی بھیجاتاکہ حالات اور نقصانات کا جائزہ لیاجاسکے۔ اس ٹیم نے بونی پہنچتے ہی مقامی انتظامیہ اور پولیس اسٹیشن کے انچارج کو تحریری طور پر آگاہ کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ اگر انتظامیہ کی غیرموجودگی میں وہ وہاں جائیں گے تو کوئی قابضیں کی جانب سے ناخوشگوار واقعہ رونماہوسکتاہے۔تاہم یونیورسٹی کی ٹیم جونہی مذکورہ بلڈنگ کے احاطے میں داخل ہوئی توموقع پرموجود محکمہ ابتدائی تعلیم کے اہل کاروں نے یونیورسٹی کے افسران پر حملہ کیا اور سیکورٹی عملے کو زدوکوب کیا جس کی علیٰحیدہ رپورٹ تھانہ بونی میں درج کی گئی ہے۔پریس ریلیز میں مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ دو اداروں کے درمیان مسئلے میں فریق بننے کی کوشش نہ کریں جوکہ کار سرکارمیں مداخلت کے زمرے میں آتی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔