داد بیداد ….فضائی سفر کی سہو لیات

دنیا بھر میں فضا ئی سفر کو مو جو دہ دور کی ضرورت سمجھا جا تا ہے لیکن وطن عزیز پا کستان میں فضا ئی سفر عیا شی کا دوسرا نا م ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ، جا پان، روس اور چین میں اندرون ِملک سفر کے لئے فضا ئی سر وس کے کرایے بھی ریل اور بس کے کرایوں کے برا بر رکھے گئے ہیں تر قی پزیر مما لک میں انڈو نیشیا، نیپال اور تھا ئی لینڈ نے بھی اندرون ِ ملک فضا ئی سفر کے کر ایوں کو زمینی سفر کے کر ایوں کے برا بر رکھا ہوا ہے یا بعض مما لک نے زمین سفر سے دگنا یا تگنا کرایہ رکھا ہے10 گنا کرایہ کسی نے نہیں رکھا وہ لو گوں کو فضا ئی سفر کی ترغیب دیتے ہیں وطن عزیز پا کستان کے اندر اندرون ملک فضا ئی سفر کے کرایے ریل اور بس کے کرایوں سے 10گنا زیا دہ رکھے جا تے ہیں اس لئے صرف اشرا فیہ سے تعلق رکھنے والے دولت مند لو گ فضا ئی سفر کے اخرا جا ت برداشت کر سکتے ہیں ہما ری حکومت بھی اور فضا ئی کمپنیوں کے ما ہرین بھی دنیا بھر سے الگ تھلک ہو کر الٹی منطق چلاتے ہیں دنیا بھر میں فضا ئی کمپنیوں کا اصول یہ ہے کہ منا فع کم رکھو، گا ہک زیا دہ بنا ؤ سروس دینے کا عمل تیز کرو مجمو عی آمدن کا حساب لگاؤ، اخراجا ت کو منہا کرو تو کمپنی کو مہنگے ٹکٹ کم تعداد میں گاہک اور کم تعداد کی سروس کے مقا بلے میں زیا دہ فائدہ ہو گا دنیا بھر کی فضا ئی کمپنیا ں اس اصول پر کارو بار کر تی ہیں وطن عزیز پا کستان میں گوا در، تر بت، سکر دو، گلگت، ملتان بہا ولپور اور چترال ایسے مقا ما ت ہیں جہاں 1960کے عشرے سے فضائی سفر کی سہو لت دستیاب ہے خیبر پختونخوا میں سوات اور ڈی آئی خان کے ہوائی اڈوں کی تعمیر کے بعد مزید دو شہروں کے لئے فضا ئی سروس کی سہو لت مہیا کی گئی مگر فضائی سفر کو عوام کی دسترس سے دُور رکھا گیا صر ف دو لت مند اور ثروت مند لو گوں تک محدود کیا گیا وقت گذر نے کے ساتھ اس میں بہتری لانے کی جگہ ابتری لائی گئی پا کستان انٹر نیشنل ائیر لائنز کا چترال روٹ اس کی ایک مثال ہے 1961سے اس روٹ پر ڈیکوٹا، فو کر اور اے ٹی آر سروس جاری ہے چترال سے پشاور تک جیپ کا کرایہ 40روپے تھا تو پی آئی اے کا ٹکٹ 65روپے تھا یہاں تک کہ 2006میں پشاور تا چترال ویگن کا کرایہ 1200روپے مقر ر ہوا تو پی آئی اے کا ٹکٹ 2510روپے میں آتا تھا ہفتے میں 21پروا زیں آ تی جا تی تھیں 2008ء تک یہ سلسلہ اس طرح جا ری رہا اس کے بعد حالات نے پلٹا کھا یا ویگن کا کرایہ کم ہو کر 900روپے مقرر ہوا جہا ز کاکرایہ بڑھ کر 7600کی حد کو عبور کر گیا ہفتے میں بمشکل 2پر وا زیں ہو تی ہیں ان میں بھی مسا فر وں کی پوری تعداد سفر نہیں کر تی اگر کرایے اعتدال میں ہو تے تو پی آئی اے چترال روٹ خسارے سے دو چار نہ ہو تا لو گوں میں وقت کو بچا نے کا رجحان بہت زیا دہ ہے نیز طا لب علموں،بیما روں اور عدا لتی پیشیاں بھگتنے والوں کی بڑی تعداد ویگن کی جگہ فضائی سفر کو تر جیح دیتی ہے یہی حا ل سکردو، گلگت اور تر بت روٹ کا ہے یہی حال گوادر کا ہے ملتان، ڈی آئی خان اور سوات کا معاملہ بھی اس سے زیا دہ مختلف نہیں ائیر پورٹ کا انتظام و انصرام، سول ایوی ایشن اتھا رٹی کے اخرا جا ت اور ائیر پورٹ سیکیورٹی فورس کا پورا عملہ ایک سسٹم کے تحت کام کر تا ہے اس سسٹم کا انحصار پر وا زوں کی آمد و رفت پر ہے اگر ہفتے میں 21پروازوں کی جگہ 2پر واز یں آتی ہوں تو حکام کو سر جوڑ کر سو چنا چا ہئیے کہ گڑ بڑ کہاں ہے؟ امریکہ، چین، انڈو نیشیا اور نیپال کی مثا لوں پر غور کر نا چاہئیے پڑو سی ملک بھارت میں اندرون ملک فضا ئی سفر کے کرایوں کے ساتھ اپنے کرا یوں کا موا زنہ کر نا چاہئیے مو جو دہ حا لا ت میں چترال پشاور روٹ پر ویگن میں سفر کا سر کاری کرایہ 500روپے ہے فضا ئی سفر کا کرایہ 12گنا زیا دہ ہے اگر فضائی سفر کا کرایہ 5گنا زیا دہ ہو تب بھی لو گوں کی بڑی تعداد فضا ئی سفر کو تر جیح دیگی نیپال میں معمولی تنخوا پر مزدوری کرنے والے محنت کش بھی بس کے سفر پر فضا ئی سفر کو اس لئے بہتر سمجھتے ہیں کہ اس میں وقت کی بچت ہے بہت کم مشقت ہے اور کرا یہ زمینی سفر سے دگنا یا تگنا ہے چنا نچہ نیپال بھارت اور انڈو نیشیا میں فضائی سفر کو اندرون ِ ملک سیا حت کا اہم ذریعہ سمجھا جا تا ہے ہماری حکومت بھی سیا حت کے فروغ پر توجہ دے رہی ہے اگر یہ زبانی جمع خرچ نہیں تو پھر حکومت کافرض بنتا ہے کہ ملک کے دور دراز پہاڑی سٹیشنوں کے لئے فضا ئی سفر کے کرا یوں میں نما یاں کمی کر کے عوام کی بڑی تعداد کو فضا ئی سفر کی سہو لت سے فا ئدہ اُٹھا نے وا لوں میں شا مل کرے اگر نیپال اور تھا ئی لینڈ جیسے چھو ٹے مما لک اس امر کا نہا یت کامیاب تجربہ کر سکتے ہیں تو پاکستان میں یہ تجربہ کیوں نہیں ہو سکتا؟اگر چین،امریکہ اور بھارت جیسے کارو باری مما لک اندرون ملک فضا ئی سفر کے کرایے کم کر کے مسا فروں اور گا ہکوں میں اضا فہ کر سکتے ہیں تو پا کستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ یہ سب کچھ ممکن ہے صر ف غورو فکر کی ضرو رت ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔