آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کہاں خرچ ہو گی؟

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستانی حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے بعد چھ ارب ڈالر قرض کی فراہمی کا ابتدائی معاہدہ طے پا گیا ہے۔

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام پر اس کے بورڈ کی جانب سے باضابطہ منظوری کے بعد عملدرآمد کیا جائے گا۔

اتوار کو سرکاری ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے خسارے کے شکار سرکاری اداروں کے مسائل حل کرنے کے لیے سٹرکچرل اصلاحات اور برآمدات اور محصولات میں اضافے کا موقع ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ پائیدار ترقی اور خوشحالی کے لیے آئی ایم ایف پروگرام پر کامیابی سے عملدرآمد اور سٹرکچرل اصلاحات اہم ہیں۔

آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کہاں خرچ ہو گی؟

پاکستان کے وزیر مملکت برائے خزانہ، محصولات و اقتصادی امور حماد اظہر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں یہ قرضہ بنیادی طور پر ادائیگیوں کے توازن اور اس سے ملنے والی مدد کے لیے مل رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رقم سے حکومت اپنے چند پرانے قرضوں کی ادائیگی کرے گی جن میں آئی ایم ایف کا بھی کچھ قرضہ شامل ہے۔

آئی ایم ایف
گذشتہ دس برسوں میں ملکی برآمدات بہت کم رہی ہیں جبکہ گذشتہ پانچ برسوں میں منفی رحجان دکھائی دیا

وزیر مملکت کے مطابق اس کے علاوہ اس رقم کو قرض پر سود کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ، درآمدات کی فنانسنگ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی فنانسنگ اور بجٹ میں مدد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

قرض لے کر قرض اتارنے کے سوال پر وزیر مملکت حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ’جب تک ہم اپنی معیشت میں سٹرکچرل اصلاحات نہیں کریں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پیچیدہ اور بنیادی مسائل کا حل جنھوں نے آپ کی معیشت کی آمدن کو روک کر رکھا ہے تب تک آپ اپنا قرضہ واپس کرنے کی قابل نہیں ہوں گے۔‘

ان پیچیدہ مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ملک برآمدات سے آمدن اکٹھی کرتا ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں ہماری برآمدات بہت کم رہی ہیں جبکہ گذشتہ پانچ برسوں میں تو منفی رحجان دکھائی دیا ہے۔‘

وزیر مملکت کے مطابق ملک میں ٹیکس بیس کا بہت کم ہونا، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہمیشہ نازک سطح پر رہنا اور سرکاری اداروں کا مسلسل نقصان میں رہنا ملکی معیشت کی حالت کے ذمہ دار عوامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سب کو ٹھیک کیے بنا حکومتی آمدن نہیں بڑھے گی اور پاکستان تب تک اپنے قرضے واپس نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مزید بہتری آئی گی اور حکومت کا مالیاتی خسارہ بھی نیچے آئے گا اور بیرونی خساروں کو بھی ایک توازن میں رکھا جائے گا۔

حفیظ شیخ
معیشت کی ماہرین کی رائے میں ملکی اداروں میں اصلاحات کے حکومتی بیانات ’ہوا میں باتیں‘ ہیں

ماہر معیشت قیصر بنگالی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس رقم سے حکومت ملک کے پرانے قرض اتارے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’کافی عرصے سے پاکستان جو قرض لیتا ہے وہ صرف پرانے قرض ادا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور یہ بھی وہیں استعمال ہو گا۔‘

انھوں نے ملکی اداروں میں اصلاحات کے حکومتی بیانات کے بارے میں کہا کہ ’یہ ہوا میں باتیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ایسے قرض لیے گئے اور ایسی ہی باتیں کی گئیں۔ انھوں نے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’سنہ 2008 سے 2013 تک وہ خود وفاقی وزیر برائے خزانہ تھے تب وہ یہ اصلاحات نہیں کر سکے تو اب وہ کیسے حالات ٹھیک کریں گے۔‘

ماہر معیشت ایس اکبر زیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم ایک قرض ہے جو تین سال بعد ہمیں واپس کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض میں بہت فرق ہوتا ہے عالمی بینک یا ایشیائی ترقیاتی بینک ہمیں تعلیم، صحت، توانائی کے شعبے میں خرچ کرنے یا ڈیم بنانے کے لیے قرض دیتے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کا قرض مالیاتی خسارے اور حکومتی ادائیگیوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے دیا جاتا ہے۔

آئئ ایم ایف

ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید گراوٹ سے تجارتی خسارہ بگڑ جائے گا تو وہ پورا کرنے کے لیے سٹیٹ بینک یہ رقم استعمال کر سکتا ہے۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ندیم الحق نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ملنے والا قرضہ کہیں بھی استعمال نہیں کیا جاتا یہ صرف ریزرو میں رکھا جاتا ہے۔

ان کی رائے میں ’آئی ایم ایف کا پروگرام اس لیے ہوتا ہے کہ جو بھی ملک ان کے شکنجے میں پھنسے وہ ملک اپنے برآمدات کا نظام ٹھیک طریقے سے چلا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ادائیگیوں کے مسائل کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان کو ملنے والے قرض سے ملکی خسارے میں کچھ حد تک بہتری آئے گی کیونکہ آئی ایم ایف خسارے کو پالیسی کے ذریعے کم کرتا ہے۔

قرض

انھوں نے کہا لہذا آئی ایم ایف کی جانب سے جو پالیسی میں تبدیلیوں کی بات کی گئی ہے اس کے نتیجہ میں ملک میں ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھے گا، روپے کی قدر کم ہو گی، غربت اور بے روزگاری بڑھے گی، تمام طرح کی سبسڈیز ختم ہوں گی، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی۔ اور اس کا بوجھ عام صارف اور ملکی معیشت پر پڑے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔