دادبیداد …..خیبر پختونخوا کے لئے نئے اضلاع

تاریخ کے اس نازک موڑ پر خیبر پختونخوا میں 9نئے اضلاع وجود میں آنے کے بعد صوبے کے اضلاع کی تعداد 34ہو گئی ہے ان میں سے 8نئے اضلاع قبائلی علاقوں میں ہیں اور ایک نیا ضلع اپر چترال ہے قبائلی علاقوں پر فوجی حکام کی بھی نظر ہے گور نر کی بھی نظر ہے عدالتیں بھی اس عمل کی نگرانی کررہی ہیں اپر چترال کا پرانا ضلع بحال کیا گیا ہے یہ ضلع 1969میں ریاست کے انضمام کے وقت ختم کیا گیا تھا اس پر کسی کی نظر نہیں ہے اور جب نئے اضلاع کا ذکر کابینہ یا پریس بریفنگ میں چھیڑ ا جاتا ہے تو 8قبائلی اضلاع کا ذکر ہوتا ہے اپر چترال کا ذکر نہیں ہوتا تاریخ کے نازک موڑ پر 9نئے اضلاع صوبائی حکومت کے لئے امتحان، آزمائش اور چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں اس چیلنج کے دو پہلو ہیں پہلا اور نظر آنے والا پہلو یہ ہے کہ بجٹ دے کر، فنڈ مہیا کر کے انتظامی دفترات پولیس لائنز، جوڈیشیل کمپلیکس، سب جیل، ڈسٹر کٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور دیگر تعمیرا ت پر کام شروع کیا جائے اس کے لئے کم سے کم 400ارب روپے کا فنڈ اگلے 3سالوں میں مہیا کرنا ہوگا یہ نظر آنے والا کام ہے سب کو نظر آئے گا دوسرا پہلو آسان مشکل ہے آسان اس لئے ہے کہ اس پر اضافی ا خراجات نہیں آتے مشکل اس لئے ہے کہ یہ انتظامی قابلیت کا تقاضا کر تا ہے اور خیبر پختونخوا میں انتظامی صلاحیت اور قابلیت کا ہمیشہ فقدان رہا ہے موجودہ دَور قحط الرجال کا آخری دور ہے پاک فوج اور فیڈرل گورنمنٹ سے درخواست کرنی ہوگی کہ ڈویژنل انتظامیہ اور ضلعی انتظامیہ کے لئے پنجاب اور سند ھ سے انتظا می امور کے ماہرین کی خدمات خیبرپختونخوا کو مستعار دی جائیں ڈویژن اور اضلاع کی سطح پر فیلڈ افیسروں کی فعال ٹیم بن جائے تو 80فیصد مسائل انتظامی معاملات کی درستگی سے حل ہوسکتے ہیں اور تھوڑے فنڈ کا بہتراستعمال ہوسکتا ہے اس وقت خیبر پختونخوا میں فیلڈ کے لئے مطلوبہ قابلیت کے حامل افیسردستیا ب نہیں ہیں ایک معمولی ڈومیسائل دستخط کرانے پر ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے فارم داخل کرنے کے 10دن بعد اعتراض لگایا جاتا ہے کہ بچے یا بچی کی تاریخ پیدائش کا سرٹیفیکٹ لے آؤ، مزید 10دن گذر نے کے بعد دوسرا نکتہ لا یا جاتا ہے کہ درخواستی کا ڈی ایم سی فارم کے ساتھ نتھی کیا جائے، ڈی ایم سی نتھی کر نے کے بعد اگلا اعتراض لگا یا جاتا ہے کہ درخواستی کے باب کا ڈو میسائل درخواست کے ساتھ لگا یا جائے عرض کیا جاتا ہے کہ شنا ختی کارڈ لگا ہوا ہے ریو نیو افیسر کہتا ہے کہ میں نے ڈو میسائل ما نگا ہے ڈیڑھ مہینہ گذ رنے کے بعد ڈو میسائل لیکر درخواستی سوچتا ہے کہ ڈو میسائل کے لئے تاریخ پیدا ئش اور ڈی ایم سی کی کوئی ضرورت نہیں تھی با پ کے ڈو میسائل کی کو ئی ضرورت نہیں تھی لوگوں کو تنگ کر نے اور بار بار صاحب بہادر کے دفتر کے چکر لگو انے کے لئے ریو نیو افیسروں کی ٹیم نے ڈومیسائل کو بر طانیہ، امریکہ، فرانس اور جر منی کے ویز ے سے بھی زیادہ مشکل بنا دیا ہے فیلڈ افیسروں کی ایسی ٹیم نہ 25 پر انے اضلا ع کا نظم و نسق چلا سکتی ہے نہ نئے بننے والے 9 اضلاع کو بہتر، فعال اور مستعد انتظا میہ دے سکتی ہے
نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ با ز و میر ے از مائے ہو ئے ہیں
جن لوگوں نے اعجاز قریشی،مظہر علی شاہ،اعجاز رحیم،غلام دستگیر خان، کپٹن محمد یو سف، میجر جاوید مجید، اُسا مہ آحمد وڑ ائچ اور ارشاد سو ڈھر کو انتظا می عہد وں پر دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ فعال انتظا میہ کس طرح ہو تی ہے؟ جن لوگوں نے جنرل فضل حق اور جنرل افتخار حسین شاہ کی انتظا می قابلیت دیکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ انتظا می معاملات کیسے چلا ئے جاتے ہیں؟ سیا ستدانوں میں اکرام خان درانی اور امیر حیدر خان ہو تی ایسے ایڈ منسٹر یٹر ملے جو افیسر وں سے کا م لینا بھی جا نتے تھے قابل افیسر کو مناسب پوسٹ پر لگا نا بھی اُن کو آتا تھا نظم و نسق،فیصلہ سازی اور گورنننس ایسا فن ہے جس پر اضافی خر چہ نہیں آتا، جس تنخوا پر نا لا ئق، بزدل اور کاہل (Lethargic) افیسر کا م کرتا ہے اسی تنخواہ پر قابل، مستعد اور نڈر افیسر بھی کام کرتا ہے ضرورت اگر ہے تو 9 ڈپٹی کمشنروں اور 4 کمشنروں کی ہے جو نئے اضلاع کے ابتدائی مراحل کو ذاتی محنت، قابلیت اور مستعد ی کے ساتھ آگے بڑھا کر عوام کو ریلیف دے دیں اور قانونی تقاضوں کو پورا کریں بریگیڈئیر شامی جب سول سر وسز اکیڈمی والٹن لاہور کے سربراہ تھے تو وہ افیسروں کو تاکید کر تے تھے کہ ہر روز نیا وژن، نیا خیال، نیا جذبہ اور نیا اچھو تا منصو بہ لیکر اُٹھو، رات کو سرہا نے پر سر رکھنے سے پہلے سو چو کہ آج کے تم نے کتنے بڑے فیصلے کئے، کتنے لوگوں کے کام نمٹا ئے اور کتنے لوگوں کو انصاف فراہم کیا؟ خیبرپختونخوا کے نئے اضلاع کے لئے 400 ارب روپے کا فنڈ لا نا اتنا مشکل نہیں نظم و نسق کو سنبھا لنے کے لئے جو ہر قابل کی تلاش بہت زیادہ مشکل ہے اور جب اس میں سیاسی رنجشوں کی آمیز ش ہو جائے تو یہ کام مزید مشکل صورت اختیار کر لیتا ہے ہماری دعا ہے کہ حکومت اس مرحلے کو سَر کر لے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔