دادبیداد …..ایک اور جنگ کی سمت

امریکہ کا نیا بحری بیڑہ خلیج کی طرف روانہ ہوا ہے سعودی عرب کے اندر تیل کی ریفائنری اور پائپ لائن پر ڈرون حملہ ہوا ہے امریکہ نے ایک بار پھر ایران کے خلاف بڑ ی جنگی مہم کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ اور خلیج میں اپنی فوجی نقل و حرکت تیز کرے گا تاکہ اتحادی ممالک خود کو تنہا محسوس نہ کریں روس نے شام میں مستقل فوجی اڈہ بنانے پر توجہ دی ہے عوامی جمہوریہ چین نے تاریخ میں پہلی بار پر یس میں بیان دیا ہے کہ وہ پاکستان میں فوجی اڈہ تعمیر کرے گا ابھی افغان جنگ ختم نہیں ہوئی تھی کہ نئے جنگ کی تیاری شروع ہوگئی ہے ہمارا خطہ ایک اور جنگ کی سمت جارہا ہے مرزا غالب نے کہا ہے ؎
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر تیرا وقت سفر یاد آیا
جنگ اسی جدید دور میں انسانیت کے لئے ہلاکت خیز ہے جدید ہتھیاروں اور بموں کی زد میں انسان ہی نہیں پرند، چرند اور نباتات بھی آجاتے ہیں ہتھیاروں کے استعمال کی تابکاری نے جنگلی حیات کی نسل کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جہاں راکٹ، ڈیزی کٹر اور موآب بموں کا حملہ ہو ا وہاں سبزہ بھی نہیں اُگتا زمین کے اندر 200گز تک زہر یلا مواد پھیل جاتاہے جنگ کی حکمت عملی کے لحاظ سے دارا، سکندر، چنگیز خان اور ہلاکو خان کے ادوار آج کل کے مقابلے میں بہت زیادہ مہذب تھے چھٹی صدی قبل از مسیح میں دارا کی فوجیں صرف مقابلے پر آنے والی فوج سے لڑتی تھیں گھروں میں گھُس کر عورتوں اور بچوں کو نہیں مارتی تھیں چوتھی صدی قبل از مسیح میں سکندر مقدونی کی فوج بھی مقابلے پر آنے والی فوج سے لڑتی تھی تیرھویں صدی عیسوی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کی جنگی مہموں کا نشانہ صرف مقا بلے پر آنے والے فوج ہوتے تھے سقوط بغدادکی خانہ جنگی کے سوا کسی بھی جگہ سویلین آبادی پر حملہ نہیں ہوا جبکہ اکیسویں صدی میں انسان غیر مہذب ہوگیا ہے اب جنگوں میں فوجیں سب سے پہلے سویلین آ بادی کو نشانہ بناتی ہیں افغانستان، پاکستان، عراق،شام،لبنان اور یمن میں ہسپتالوں،مسجدوں،سکولوں،مدرسوں،جنازہ گاہوں،کھیل کے میدانوں اوردوسری آ بادیون کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا مقابلے پر آنے والی فوج پر جوابی حملہ کرنا جنگی حکمت عملی میں معیوب نہیں سمجھا جاتا سویلین آبادی کو نشانہ بنانا انسانی تہذیب اور تمدن کے ہر معیار پر اخلاق سے گِری ہوئی حرکت سمجھا جاتاہے لیکن عالمی طاقتوں کو اس کی پرواہ نہیں امریکہ نے تحفیف ِ اسلحہ پر پابندی اپنے لئے ختم کی ہے موجودہ حالات میں جنگ کا ماحول پیدا کرنا امریکہ کے لئے تین پہلووں ے ناگزیر ہے اس کا ایک پہلویہ ہے کہ جنگ امریکی سرحد سے 7000کلومیٹر دور خلیج اور جنوبی ایشیاء کے ممالک میں ہوگی، امریکہ کا کوئی نقصان نہیں ہوگادسرا پہلویہ ہے کہ 2020ء امریکہ میں انتخابات کا سال ہے خلیج اور جنوبی ایشیاء مین جنگ چھیڑ ی گئی تو امریکہ میں ریپلکن پارٹی کو دوبارہ حکومت ملے گی امریکی رائے عامہ ہمیشہ جنگ لڑنے والوں کو ووٹ دیتی ہے امن کی بات کرنے والی پارٹی کو ووٹ نہیں دیتی تیسرا بلکہ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ امریکی معیشت کو جنگ سے فائدہ ہوتاہے اُن کا اسلحہ فروخت ہوتا ہے تیل، گیس اور دیگر معدنیات ان کے قبضے میں آجاتی ہیں ہیروئن، آئس اور دیگر منشیات کی کھلی تجارت سے امریکہ کے خفیہ سرمایے میں اضافہ ہوتا ہے معاشی ماہرین نے افغانستان جنگ کے دوران ”نارکوڈالر“کی اصطلاح اس بنا پر وضع کی تھی عراق کی جنگ میں ”پٹرو ڈالر“کی اصطلاح وضع ہوئی تھی ان ٹھوس وجوہات کی بناء پر اس وقت جنگی ماحول پیدا کرنا امریکہ کی سیاسی اور معاشی ضرورت ہے پینٹاگان کے حکام اس ضرورت سے غافل نہیں رہ سکتے 2001ء میں دفاعی امورکے ماہر پروفیسر چوسوڈوسکی (Chussodvosky)نے عالمی استعمار کے ایک خفیہ منصوبے کا انکشاف کیاتھا منصوبے کا خاکہ یہ تھا کہ 2030تک آنے والی تین دہائیوں میں خلیج اور جنوبی ایشیاء کے 10ممالک کو توڑکر 15نئے ممالک بنائے جائینگے اپریل 2019ء میں سی آئی اے کے ریکارڈ سے خلیج اور جنوبی ایشیا ء کا جو نیا نقشہ چرایاگیا ہے اس نقشے میں پروفیسر چوسو ڈوسکی کے نقشے پر کئی اضافے نظر آتے ہیں مثلاََبھارت کو توڑ کر نئی ریاستوں کا قیام،اس نقشے میں ہے پہلے نقشے میں نہیں تھا حجاز میں سعودی عرب کی موجودہ سرحدوں کو توڑ کر اردن کی سرحدکو حرمین سے ملانے اور مکہ معظمہ کے ساتھ مدینہ منورہ کو شامل کرکے ویٹی کن سٹی میں پوپ کی برائے نام سلطنت کی طرح حرمین شریفین کی الگ مملکت کا نقشہ بھی چوسو ڈوسکی کے نقشے میں نہیں تھا نئے نقشے میں اس کا ذکر ہے پروفیسر چوسو ڈوسکی نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے اُن کا کہنا ہے کہ جن قوموں کو ایٹمی طاقت ہونے پر نا ز ہے ان کوسویت یونین کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیئے اور جن ملکوں کو بڑی فوج رکھنے پر غرور ہے اُن کو صدام حسین کی فوج ری پبلکن گارڈز کے انجام پر غور کرنا چاہئیے دونوں دور حاضر کے نمونے ہیں دونوں نمونوں سے یہ سبق ملتاہے کہ عوام متحد نہ ہوں،سیاسی قیادت یکسو اور متحد نہ ہو تو ایٹمی طاقت اور بڑ ی فوج کسی ملک کو نہیں بچا سکتی آج کا دشمن ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ عوام کو آپس میں لڑاکر ملک کو کمزور کیا جائے اور یہ تکنیک ”ففتھ جنریشن وار“کہلاتی ہے پاکستان میں یہ تکنیک 1979سے اب تک 40سالوں میں خوب آزمائی گئی ہے اور کا میابی سے استعمال ہوئی ہے عاقل کے لئے اشارہ ہی کافی ہے بقول علامہ اقبال ؎
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار ِکتاب آخر

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔