درحقیقت( نشہ کی گولیان اور کھلونے اسلحے )

……تحریر:ڈاکٹر محمد حکیم………..

مجھے ڈپٹی کمشنر صاحب چترال کے کھلونے اسلحوں کی خریدوفروخت پر پابندی کی خبر دوران سفر پڑھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی۔کہ ڈی سی صاحب یقیناً ھیلتھ کے شعبہ نفسیات کے علم سے بھی حد سے زیادہ آشنا ہے۔ اسکا یہ نفسیاتی فیصلہ ہمارے لئے ایک سبق اموز پیغام ہےاور وہ چترال کے پرامن ماحول سے بہت ہی متاثر ہیں۔اور اس کو تاقیامت برقراررکھنا چاہتا ہے۔
محب وطن افیسر ہر لمحہ اور ہر وقت اپنے علاقے کے باسیوں کے لئے سوچتا رہتا ہے۔کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دینا چاہتا ہے جس سے اس کے زیر کنٹرول علاقہ میں لوگ ہمیشہ کیلئے اس کے اس کارنامہ کو تا حیات یاد کرسکیں۔اور اس کو اپنے دعاؤں میں ازبر کرسکیں۔۔
ایک دن میں اپنے عزیز دوست ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔راستے میں کھلونوں کا دوکان آیا۔ اس کے ہمراہ اس کا چھوٹا بیٹا بھی تھا۔اس نے فورًا اس دوکان سے کھلونا بندوق خریدنے پر بہ ضد ہوا۔ میں نے یہ بندوق اس کیلئے تحفہ کے طور پر خریدا اس لیئے کہ اس کے علاوہ کوئی بھی دوسری چیزوہ لینے کے خوائش مند نہیں تھا۔ مجھے آج کھلونے اسلحوں پر پابندی نے وہ بات یاد دلادی ۔ایسا نہ ہو کہ میرا دوست ڈاکٹر یہ سمجھیں کہ یہ شکایت میں نے ایڈمینسٹریشن کو کی تھی۔ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلکہ یہ ڈی سی صاحب کی دوراندیشی ہے۔اس نے بچوں کے ارتقائی مرحلے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اجھا اقدام اٹھایا ہے۔اس کی ہم سب تائید کرتے ہیں۔ بچوں کو اسلحوں سے آشنا کرنےکی بجائے ہم قلم و کتاب سے انکی معصومیت کو مزین کریں۔ تاکہ ہماری نسل بڑے ہوکر دشت گردی کی طرف مائل ہونےکی بجائےایک تعلیم یافتہ با وصف اور با کمال بن جائے۔ اوراپنے اندرانقلابی اوصاف تعارف کرائے۔اور یوں بفضل خدا ہمارے معاشرے سے جرائم اوربدعنوانیوں کا خاتمہ ہو۔
باقی رہی بات ان اسلحوں کی جو شاید ڈی سی صاحب کے نوٹس میں نہیں آئے ۃوں گے۔ لیکن وہ کھلونے اسلحوں سے ہزار بار جان لیوا ہیں۔ وہ نشہ اور ادویات ۃیں جنکا آجکل نوجوان نسل عادی ہو چکا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں یہ ناسور عام ہوتا جارہا ہے۔ 10 میں سے 4 نوجوان اس فعل بے ثمر کے شکار ہوچکے ہیں۔ لوگوں کا بڑے عمر میں جاکر ذہنی تناؤ کا شکار ہونا اوراس کے روک تھام کیلئے ادویات کا استعمال کرنا اتنی بری بات نہیں ہے۔اور وہ بھی کسی مستند ماہر طب یعنی ڈاکٹر سے نسخہ کی بنیاد پر استعمال کیا جائے ورنہ یہ بھی قانونی طور پر جرم ہے۔کیونکہ ذہنی دباؤ کے ادویات کے استعمال کرنے کا فائدہ صرف ایک ہوتا ہے۔وہ بھی انتہائی مجبوری کے وقت لیکن انکے منفی اثرات کی طویل لیسٹیں بھری پڑی ہیں۔ ان کاآخری انجام خودکشی کرکےاپنی جان کھودینے کے مترادف ہے۔
چترال شہر کے مختلف میڈیکل سٹوروں میں ذہنی تناؤ کےعلاج کے مختلف اقسام کے ادویات موجود ہیں۔ ہر کسی کو اس چیز کا علم نہیں ہے کہ ہر دوائی کی اپنی الگ الگ طریقہ اثر ہوتا ہے۔ مگر بیچارہ دوائی فروش کو کیا پتہ ہے۔کہ اس دوائی کے مختلف انسانی اعظاء کے اوپر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے۔کہ میڈیکل سٹور میں بیٹھا ہوا ڈاکٹر صاحب panadolاور calpol دونوں کو ایک ساتھ بندے کو دے دیتا ہے۔۔اصل میں دونوں کے اندر acetaminophen کے نام کا تیزاب سے بنا ہوا chemical ہے۔ جس کو ضروت اور اسکے مناسب مقدار سے زیادہ لیا جائے۔تو یہ جگر کے افعال کو اچانک فیل کرتا ہے۔اور اسکے لئیے امرجنسی کی بنیاد پرعلاج باھم پہنچانے کی اشد ضروت ہوتی ہے۔اس لئے محکمہ صحت اور ایڈمینسٹریشن دونوں کے اشتراک سے چترال شہر کے اندر اور مضافات کیلئے ایسے آرڈرکا اجرا کیا جائے جسمیں مقامی طور پر بلا ضرورت اور بیغیر ڈاکٹری تشخیص شدہ نسخہ کے کسی کو کوئی دوائی نہ دینے کا پابند بنایا جائے تاکہ ایسے نا خوشگوارواقعات رونما ہوکر قوم کے قیمتی سرمائے یعنی نوجوان نسل کو خود کشیوں کے شکار ہوکر اپنی قیمتی زندگی سے ہاتھ دھو نہ بٹھیں۔اسمیں میرا اشارہ نشے کےعادی افراد کی طرف ہے۔ ہم نےاپنے دوران ملازمت تجربہ کی بنیاد پر یہ دیکھا ہے کہ نشے والے ادویات انسانو ں کو مایوسی کا شکار کرتے ہیں۔ اورپھر بے وقت موت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔