داد بیداد…مقدمہ بازی کی عادت

کورٹ رپورٹر نے خبر لگوائی ہے کہ ہا ئی کورٹ کے بینچ میں ایک مقدمے کی سما عت کے دوران جج نے ریکار کس دیتے ہوئے کہا کہ ایک شخص کو یہ اجا زت کیوں دی جاتی ہے کہ وہ عدا لت سے حکم امتنا عی حا صل کر کے 200افراد کی نو کریوں کا راستہ روکے اور سر کاری دفاتر کے روٹین کو کئی مہینوں اور سا لوں تک متا ثر کرے جج کا تبصرہ حقیقت پر مبنی ہے جج نے شا ید کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ایک شخص کو بے معنی مقدمہ دائر کر کے عدا لت کا وقت ضا ئع کرنے کی اجا زت کیوں دی جا تی ہے؟ میرے سامنے دو دنوں کے 4اخبارات ہیں ان میں 5 خبریں ہیں رویت ہلا ل کمیٹی کو چاند دیکھنے سے روکنے کے لئے رٹ پٹیشن کی خبر ہے ایک اور درخواست کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کی لا ش کو فیصل مسجد سے اٹھا کر کسی قبر ستان میں دفنا نے کے لئے استدعا کی گئی ہے سپیکر کو کا م سے روکنے کے لئے مقدمہ لا یا گیا ہے تعلیمی بورڈ کو آٹھویں جما عت کا امتحا ن لینے سے روکنے کے لئے درخواست دائر کی گئی ہے سر کاری ملا زم نے اپنی تبدیلی روکنے کے لئے عدا لت سے رجوع کیا ہے سب نے آئینی استحقاق کا سہارا لیکر عدا لتی حکم حا صل کرنے کی کو شش کی ہے بظا ہر اس میں کوئی ہرج نہیں مگر حقیقت میں اس طرح کے ہزاروں مقدمات دنیا کی تر قی یافتہ اقوام کے سامنے پاکستا نی قوم کو گنوار، احمق اور بے وقوف کے طور پر پیش کرتے ہیں دوسری طرف ایسے مقدمات کے نتیجے میں ہمارے ہاں روز روز نئے مقدمہ باز پیدا ہوتے ہیں سچ پو چھئے تو مقدمہ بازی بھی شراب، چرس اور ہیروئین کے نشے کی طرح ایک بری عا دت اور ایک بُری لت ہے مقدمہ باز اپنی عا دت سے باز نہیں آ سکتا ہمارے ایک دوست 1977 میں گواہ کی حیثیت سے ایک مقدمے کی سما عت کے دوران عدا لت میں پیش ہوئے، اپنی باری کے انتظا ر میں بیٹھے تھے کہ ان کو دو مقدمات میں مختار خاص بننے کی پیشکش ہوئی چند سال بعد ملاقات ہوئی حا ل احوال اور روزگار کے بارے میں پوچھا تو اانہوں نے بتا یا کہ اللہ کے فضل سے 43مقدمات میں مختار خا ص ہو ں ما تحت عدا لتوں سے لیکر سپریم کورٹ تک ان مقدمات کی پیروی کرتا ہوں اللہ کا دیا سب کچھ ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک پیشہ ور مقدمہ باز کو 43مقدمات میں بیک وقت مختار خا ص بننے کی اجا زت کیوں دی جا تی ہے؟ ملا زمت کے لئے ٹیسٹ، انٹر ویو اور ملازمین کی تبدیلی کے عمل میں عدالت کو کس لئے گھسیٹا جا تاہے؟ اور عدا لت ایسی درخواستوں پرغور کر کے اپنا وقت کیوں ضا ئع کرتی ہے؟ مقدمہ بازی کی لت اور بے سروپا مقدمات کی وجہ سے 22لاکھ مقدمات عدا لتوں میں زیر التوا ہیں ما تحت عدا لتوں سے لیکر عدا لت عالیہ اور عدالت عظمٰی تک ہر جگہ یہ حال ہے کہ ایک ایک جج کے پاس ایک دن میں 20مقدمات کی کازلسٹ آتی ہے ہر روز 5مقدمات میں حا ضری، 6مقدمات میں شہادت،4مقدمات میں بحث اور 5مقدمات میں فیصلہ کے مراحل ہیں اب جج ایک دن اتنے سارے مقدمات کے ساتھ کس طرح انصاف کرے گا؟فضول مقدمہ بازی کی لت کو ختم کرنے کے لئے تین طرح کے اقدامات اُٹھا نے ہونگے سب سے پہلے پیشہ ور مقدمہ بازوں کی فہرست مر تب کرکے اُن کو نئے مقدمات میں مختار خا ص بنے سے روکنا ہو گا پیشہ ور مقدمہ باز گھر بیٹھ گئے تو 50فیصد مقدمات خود بخود ختم ہوجائینگے دوسرا کام یہ کرنا ہو گا کہ ملا زمتوں سے متعلق مقدمات کا دائر ہ اختیا ر سروس ٹریبو نل کو حا صل ہے لہذا سرکاری ملا زمت کے حصول سے لیکر سر کاری ملازم کی تبدیلی تک تمام مقدمات سروس ٹریبو نل کو بھیج دیے جا ئیں اس طرح سول عدالتوں پر مقدمات کے غیر ضروری بوجھ میں نما یاں کمی آئے گی اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے رو یت ہلا ل کمیٹی کو چا ند دیکھنے سے روکنے کے لئے شا ہد اورکزئی کی در خواست کو خا رج کر کے اچھی مثال قائم کی ہے بہتر یہ تھا کہ اس درخواست کو رجسٹر ار آفس ہی مسترد کر دیتا خواہ مخواہ بنچ کے حوالے کرکے کاز لسٹ میں ڈال کر پیشی لگانے کے بعد درخواست کو خا رج کرنے میں عدالت کا قیمتی وقت ضا ئع ہونے سے بچ جا تا اگر ہر عدا لت کا رجسٹرار اور ہر بنچ کا جج ایسے مقدمات کو پہلی پیشی میں ہی خا رج کردے تو سب کا بھلا ہو گا ہماری عدا لتوں میں حکم امتنا عی اور قانون شہا دت کے غلط استعال سے بھی پیچید گیاں پیدا ہوئی ہیں گذشتہ ما ہ قانون شہادت کی غلط تشریح کی وجہ سے پشاور کے زرعی تر بیتی مر کز پر دہشت حملے کے 6ملزم بر ی ہو گئے حکم امتنا عی کے نا جا ئز استعما ل کی بے شما رمثا لیں ہیں ”سٹیٹس کو“ والی رعا یت کی بھی کئی مثا لیں ہیں اس کا فائدہ اُٹھا کر لوگ کئی سا لوں تک دفا تر، زمینا ت اور عہدوں پر قا بض رہتے ہیں ایک سیا ست دان 5سال اسمبلی ممبر اور وزیر رہنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کو حکم امتنا عی اور سٹیٹس کو میں سے کسی قانون کا غیر قا نو نی سہا را مل چکا تھا بنج اور بار مل کر مقدمہ بازی کی بری عا دت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر لیں تو اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔