نظم۔     مجھے کچھ گُر نہیں آتے

        ……….   از ظہورالحق دانش………………

مجھے یہ گُر نہیں آتا 

کسی کے کِذبِ عیّاں کو

صداقت کا گماں دے کر

حق میں ناحق بیاں دے کر

گویا اپنا ایماں دے کر

کوٸی مفاد حاصل کروں

غرض و لالچ کے تہِ دم

اصولوں کو بسمل کروں

مجھے یہ گُر نہیں آتا

مجھے یہ گُر نہیں آتا

کہ جو انسان کی تذلیل کو

اپنا شُغل سمجھتا ہے

میں اس کی صف میں بیٹھ جاٶں

اُس کی ڈکار تک کو میں 

عظمت کی بانگ گردانوں 

مجھے یہ گُر نہیں آتا

مجھے یہ گُر نہیں آتا

کہ جو اوروں کی بُراٸی کو اپنی بڑاٸی جانے

اور جس کی صبحیں اور شامیں

خلق کی تذلیل میں گزریں

ٹیڑھی     دلیل میں گزریں

جھوٹی  تاویل میں گزریں

اور میں اُس کے لفظ لفظ چن کر

گلے   کا  ہار بناٶں

نقش و نگار بناٶں

دل  کا  قرار بناٶں 

مجھے یہ گُر نہیں آتا

مجھے یہ گُر نہیں آتا 

خلقِ خدا کا حق چھین کر

شکم  میں  آگ بھر بھر کر

جو خود کو ”کیا“ سمجھتے ہیں 

جو مجبوری کی خامشی کو 

خلق  کی رضا سمجھتے ہیں

جو استحصالِ انسان کو 

اپنی ادا سمجھتے ہیں

اور جو فنا کے متاع کو

اپنی بقا سمجھتے ہیں 

میں اُن کی گود میں بیٹھ کر

اُن کے شکم کے خدوخال،

اُتار    چڑھاٶ ناپ لوں 

اخلاق کے گھاٶ ناپ لوں

مجھے یہ گُر نہیں آتا 

مجھے یہ گُر نہیں آتا 

کہ جو تکذیب کے ٹکڑوں پر 

پلا بڑا ہوا ہو اور 

نااہلی کے زینے پر

ناز سے چڑھا ہوا ہو اور 

میں اُس کی اِن کرتوتوں کو 

شادمانی کا پیرہن دیدوں

جھوٹ کی عُریان روحوں کو

تاٸید کے ٹھوس بدن دیدوں

اُس کی رضا حاصل کرکے

خود کو محفوظ گردانوں 

اس  کا مقروض گردانوں

سودا ضمیر کا کرکے

کچھ  قہقہے سمیٹ لوں

تاریک گوشے سمیٹ لوں

مجھے یہ گُر نہیں آتا

مجھے یہ گر نہیں آتا 

کہ جو نفرت کے تاجر ہیں

خلق کی تقسیم کے ماہر ہیں

جو  روحانیت سے عاری ہیں

انسا نیت  سے عاری ہیں

حرص و مفاد کے پجاری ہیں

جو مادیت کے بیوپاری ہیں

اسی واسطے وہ استعمال

دین و مذہب کا کرتے ہیں

حسب نسب کا کرتے ہیں

یا  سیاست  کا کرتے ہیں

یا  سیادت  کا کرتے ہیں

میں اُن کا ہمرکاب بنوں

گویا بھوکا زرقاب بنوں

مجھے یہ گُر نہیں آتا 

مجھے یہ گُر نہیں آتا 

کہ جو خود ساختہ ”نیک لوگ“ ہیں

جو سماج کا اصل روگ ہیں

ہر دم خودبین تقویٰ کی اوٹ سے

دوسروں کو تکتے رہتے ہیں

معیارِ دوغلاپن میں جو

ہمیشہ اٹکتے رہتے ہیں

جنہیں سماج میں جستجو 

سیہ کاروں کی رہتی ہے 

گنہگاروں کی رہتی ہے 

بُراٸی بے نقاب کرکے 

ان کی پارساٸی بڑھتی ہے

خیر  سے  شر کشید کرکے

خلق کو دوزخ رسید کرکے 

اُن کا  ایمان پھولتا ہے

خُلد کا گمان پھولتا ہے

میں اُن کا دَم ساز بن کر

بربطِ  بے  آواز  بن کر

اُن کی مِدحت  گنواٶں

اُسی مدحت کی آڑ میں

خود کو پارسا گردانوں 

نیک   و   رسا گردانوں

مجھے  یہ  گُر  نہیں آتا

مجھے یہ گُر نہیں آتا 

کسی کا پالشی بن کر

اور اندھا لالچی بن کر

کردار کو  دغدار کرکے 

خودی سے تکرار کرکے

گریبان اُس کے ہاتھ دے کر

ہر شر میں اس کا ساتھ دے کر

”گزارا“ کرکے جی لینا 

”مدارا“ کرکے جی لینا 

مجھے  یہ گُر نہیں آتا

مجھے یہ گُر نہیں  آتا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔