داد بیداد…..پوپلزی کا پس منظر

1440 ہجر ی کا عید الفطر سعودی عر ب سے پاکستان تک تقسیم در تقسیم کا شکار ہو نے بعد پرنٹ، الیکٹر انک اور سو شل میڈ یا میں ایک بار پھر یہ بات گردش کر رہی ہے کہ پو پلز ی کو ن ہے؟ خیبر پختونخوا والے سب سے پہلے چاند کیوں دیکھتے ہیں؟ الگ رو ز ہ کیوں رکھتے ہیں؟ الگ عید کیوں منا تے ہیں؟ اس حوالے سے لطیفے گھڑ لئے جا تے ہیں اور حکایتیں تراشی جا تی ہیں یہ سب یکطر فہ طور پر ہو رہا ہے پوپلزی کے پس منظر پر کبھی غور نہیں کیا جاتا پشاور کا پوپلزی خاندا ن، چارسدہ کا صاحب حق خاندا ن اور مردان میں یار حسین کا مدر سہ سکھوں اور انگر یز وں کے زمانے میں رویت ہلا ل کی شہا دتیں لیکر لوگوں کو اسلا می مہینوں کی تاریخوں سے آگاہ کر تے تھے اور ہجر ی قمر ی تقویم کا پورا حساب رکھا کر تے تھے مسجد قاسم علی خان کی ایک تاریخ ہے یہ دو چار سالوں کی بات نہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ اور ان کے جانشینوں نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا انگریز وں نے ان کے کام میں کبھی مداخلت نہیں کی اگر گذشتہ 400 سالوں کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیا جائے تو انہوں نے کسی بھی قمر ی ہجر ی سال میں 2 سے زیادہ مہینے 30 کے نہیں بنا ئے ہر سال 2 مہینے 30 دن 10 مہینے 29 دن کے ہو ئے گذشتہ 5 سالوں میں 1436 سے لیکر 1440 تک مر کزی رویت کمیٹی اور پو پلز ئی کمیٹی کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھیں تو پو پلزی نے ہر سال 10 مہینے ”چاند نظر آیا“ کا اعلا ن کیا 2 بار چاند نظر نہیں آیا کا اعلا ن ہوا مر کزی رویت ہلا ل کمیٹی نے کسی سال 3 مہینے، کسی سال 5 مہینے، کسی سال 4 مہینے اور کسی سال 7 مہینے ”قابل قبول شہادت مو صو ل نہیں ہو ئی چاند نظر نہیں آیا“ کا اعلا ن کیا ”قابل قبول شہادت ُ“ کی ترکیب سے معلو م ہو تا ہے کہ شہا دتیں آگئیں مگر کمیٹی نے قبول نہیں کیا یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلا می دنیا کیا کر تی ہے؟ سعو دی عر ب میں قمر ی کیلینڈر اور رویت ہلال کی شہا دت کو یکجا کیوں کیا گیا ہے؟ پیر 6 مئی کا یکم رمضان 1440ہجری اور منگل 4 مئی کا یکم شوال 1440 ہجری سعودی عر ب کے قمری کیلنڈر میں پہلے سے مو جو د تھے ا س سال زحل اور چاندکے شک نے اُن کو کفارہ دینے پر مجبور کیا ویسے پیر 6مئی کے دن خیبر پختونخوا ہ کے پہاڑی علاقوں میں مر کزی رویت ہلا ل کمیٹی کے اعلان کے مطا بق 30 شعبان تھا کسی کا روزہ نہیں تھا قریبی چراگا ہوں سے گوجر برادری کا چرواہا علاج کے لئے ٹاؤن آیا تواس نے ڈرپ لگا نے سے یہ کہ کر معذرت کی کہ میرا روزہ ہے ڈاکٹر نے پو چھا کیو ں روزہ ہے ریڈیو اور ٹی وی پر تو اعلان نہیں ہوا بیمارنے کہا ہمارے پاس نہ ریڈیو ہے نہ ٹی وی، ہم نے سور ج غروب ہونے کے بعد چانددیکھا قریبی بستیوں میں خبر پہنچائی اور روزہ رکھ لیا ہم ہر سال ایسا ہی کر تے ہیں یہ لو گ جدید ٹا ؤن سے 300 فٹ کی بلندی اور 4 کلو میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں یہ فاصلہ اترائی میں ایک گھنٹہ اور چڑھا ئی یں ڈیڑھ گھنٹہ کی پید ل مسا فت سے طے ہو تا ہے اگر یہ شخص مر کزی رویت ہلا ل کمیٹی کے پاس آکر رویت ہلال کی شہا د ت دے دیتا یااُس کے 6 ساتھی شہا دت دے دیتے تو مر کزی رویت ہلال کمیٹی کے لئے یہ شہا دتیں کبھی قابل قبول نہ ہو تیں اس لئے انگریزی محاورے کی رو سے ” لاعلمی نعمت ہے ” انہوں نے رویت ہلال کمیٹی تک پہنچنے کی کوئی زحمت نہیں کی اپنا روزہ اسلامی عقیدے اور طریقے کے مطابق قر یبی بستیوں کو اطلا ع دے کر رکھ لیا اس ناخواند ہ مسلما ن کو سال بھر کے قمر ی مہینوں کا ریکارڈ زبانی از بر ہے فلا ں مہینہ 29 دن اور فلاں مہینہ 30 دن گو یا قمر ی تقویم کو نہ جا نتے ہو ئے لا شعو ری طور پر اس بستی کے مسلمانوں نے چاند کی رویت کے ساتھ جوڑ کر سنبھا لا ہوا ہے اس میں غلطی کا احتما ل کو ئی نہیں جس طرح علما ئے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ صرف سائنسی آلا ت پر انحصار نہیں کیا جاسکتا رویت ہلا ل کی لا زمی شرط پوری ہو نی چاہیے اس طرح علما ئے کرام کو اس بات پر اتفاق رائے پیدا کر نا چاہیے کہ ذرائع ابلا غ کی ترقی کے اس ناحنچار دور میں ایک ملک، ایک صو بے اور ایک شہر میں رمضان میں شعبان اور شوال میں رمضان کا اعلان کر کے بعض لوگوں کو روزے کے دن کھا نا کھلا نا اور عید کے دن روزے رکھو انا جائز ہے یا نہیں؟ اس بات پر بھی اجماع ہو نا چاہیے کہ اگر بعض قمر ی سالوں میں 3 مہینے یا 5 مہینے 30 دن کے ہو سکتے ہیں تو ہجر ی تقو یم ہر سال 10 دن پیچھے کیوں آتاہے؟ یہ فقہی اور تکنیکی امور ہیں ان امور کے ساتھ اس بات پر بھی غور ہو چا چاہیے کہ مر کزی رویت ہلا ل کمیٹی کی مد ت 3 سال، 5 سال یا 7 سال مقرر کر نا شریعت کی روسے کیسا ہے؟ اگر جا ئز ہے تو حکومت کو متفقہ مشورہ کیوں نہیں دیا جاتا؟40 سالوں تک ایک ہی کمیٹی کیوں بیٹھی ہو ئی ہے؟پوپلزی،پشاور اور پختون کے خلاف یکطرفہ پروپگینڈا کرنے سے مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے کمیٹی کی تشکیل نو سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔