دھڑکنوں کی زبان…..قاری شعیب مرحوم

عالم کی موت عالم کی موت ہے۔دنیا میں اللہ کے دین کا فہم رکھنے والے زمین میں تاروں کی مانند ہیں۔جن کی موجودگی سے اللہ کی زمین جگمگا اٹھتی ہے۔قاری محمد شعیب ان نابغہ روزگار افراد میں سے تھے جن کا متبادل ملنا مشکل ہے۔ان کواللہ نے دیگر قدرتی صلاحیتوں کے علاوہ خوش الحانی کی ایسی دولت سے نوازا تھا۔کہ اس کی آواز کی شرینی سے سننے والے مست مست ہوجاتے تھے۔وہ جب لہک لہک کے قرآن سناتے تو سننے والوں کے دلوں کی کیفیت ہی اور ہو جاتی۔قاری محمد شعیب ۲۷۹۱ء کو کجو بلا میں محراب جی کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کے ابو چترال کے ایک معتبر قبیلہ بائیکے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور چترال شہر میں کاروبار کرتے تھے۔۔آپ نے اپنے بچوں کواعلی تعلیم دلائی۔آپ کا بڑا بیٹا ڈاکٹر نذیر حسین شاہ ہیں ان سے چھوٹے منظور حسین ڈی سی آفس چترال میں سپریٹنڈنٹ تھے جوان مرگ ہوئے۔اس سے چھوٹا عراج الدین محکمہ پاپولیشن میں آفیسر ہیں۔ان سے چھوٹا عبدالرزاق استاد ہیں۔قاری محمد شعیب سب سے چھوٹے تھے۔۔آپ نے میٹرک پاس کرنے کے بعد دارالعلوم چترال میں حفظ قرآن میں داخلہ لیا۔ حفظ اور تجوید اور دینی علم مکمل کیا۔پھر پچیس سال سے قرآن پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہا۔۔آپ دارالعلوم چترال میں شعبہ حفظ کے انچارچ تھے۔آپ کی محنت سے کئی بچے قرآن پاک حفظ کرلیئے اور اللہ کے کلا م کواپنے سینوں میں محفوظ کر لیا۔آپ کی دنیا اس مسجد کے اندر تھی۔آپ کی قرات اور خوش الحانی مشہور تھی۔آپ ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔۔آپ کے بھتیجوں میں احتشام نذیر اور محمد جنید منظور پاک آرمی میں کیپٹن ہیں۔ذیشان نذیرانجینئر ہیں۔ خدیجہ حینا نذیر ڈاکٹر ہیں۔ان کے علاوہ سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔آپ کے اپنے چار بیٹے پڑھ رہے ہیں۔بڑے بیٹے نے میٹرک کا امتحان دیا ہے۔قاری محمد شعیب کی ایک اپنی پہچان تھی۔وہ ایک ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔کم گو اور ہنس مکھ تھے۔ان کا چہرہ انور شرافت اور ایمان کے نور سے جگمگاتا رہتا۔وہ بہت کم گفتگو فرماتے۔ایک لفظ بھی فضول اس کے منہ سے نہیں نکلتا۔وہ شرافت کے جیتے جاگتے پیکر تھے۔ان کے شاگرد ان کی شرافت سے متاثر تھے۔وہ ایک ہی ملاقات میں لوگوں کواپنا گرویدہ بنا دیتے۔وہ غیبت،جھوٹ، فریب، دھوکہ وغیرہ انسانی کمزوریوں سے بلا تر تھے۔ان کا دل پاکیزگی کی آماجگاہ تھا۔وہ کسی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولتے۔سب کو سنتے اور مسکرا کر سنتے۔کسی کی ملامت اور تضحیک نہ کرتے۔۔سب کو احترام دیتے۔سب سے پیار کرتے۔ان کی شخصیت میں ایک کشش تھی۔وہ کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔وہ نہایت متین سنجیدہ اور خوش اخلاق تھے۔خوش لباس اور خوش خوراک تھے۔کم بولتے لیکن لفظ لفظ موتی ہوتا۔ان کو انسانیت سے محبت تھی۔۔وہ ہر برائی سے دور رہتے۔ قرآن عظیم الشان سے عشق تھا۔ہمہ وقت تلاوت میں مصروف رہتے۔ان کی نگرانی میں سالانہ کئی حفاظ کرام اپنا حفظ مکمل کرتے۔ان کو اپنے طلباء سے والہانہ محبت تھی۔ان کے شاگرد ان سے عقیدت رکھتے۔وہ ایک بے مثال معلم تھے۔وہ خود ماڈل تھے اور کردار سازی پہ زور دیتے۔ان کی شرافت کیوجہ سے معاشرے میں اس کابڑا مقام تھا۔وہ ڈاکٹرز کالونی سنگور کے امام تھے۔بڑے بڑوں میں آپ کا مقام تھا۔وہ بڑی محفلوں میں تلاوت قرآن فرماتے۔وہ سیدھا سادا زندگی گزارتے۔توکل اور قناعت ان کی گھتی میں پڑی تھی۔وہ دنیا کی چکاچوند اور مصنوعیت سے دور رہتے۔وہ سیاسی بکھیڑوں سے اپنے آپ کو بچاتے رہتے۔دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہتے۔وہ زندگی کی حقیت سے آشنا ء تھے اس لئے زندگی کی رنگینیوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔وہ طمع اور لالچ سے پاک ایک خودار انسان تھے۔قاری محمد شعیب ایک حوالہ تھے ایک احساس اور احترام۔انسان کو عظیم بننے میں دیرنہیں لگتی البتہ اس کی عظمت کو سمجھنے میں لوگوں کو وقت لگتا ہے۔قاری شعیب کی زندگی میں ہی اس کی عظمت کے لوگ قائل ہو گئے تھے۔اس کی موت رمضان المبار ک کی ستایسویں تاریخ کو ہوئی۔اس کو یرقان لاحق ہوا اور جان لیوا ثابت ہوا۔اس کی نمازجنازہ میں لوگوں کا اژدھام تھا۔چترال کی تاریخ میں ایسا ہجوم شاید امڈ آیا ہو۔یہ اس کی خوش بختی کی علامت تھی۔اس کی موت سے اس کے خاندان اور برادری میں بہت بڑا خلا پیدا ہوا۔اللہ اس کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔