اپنی نسبت تبدیل کرنے کی شرعی حیثیت

…….مفتی محمد غیاث الدین
لیکچرر اسلامیات گورنمنٹ ڈگری کالج چترال……………
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے:اناجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم”ترجمہ: بےشک ہم نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان لو”،بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سےسب سے زیادہ عزت والا تم میں سب سے زیادہ پرہیزگارہے”۔
قرآن کریم کے اس فیصلے کی رُو سے یہ بات طے ہے کہ قوم وقبیلے ایسی کوئی چیز یا وصف نہیں جو فضیلت کا معیار ہو اور  جس پر فخر کیا جاسکے ،اوراس پر فخر کرنا اس کی مقصدیت کی نفی کرنا ہے۔نیز عقلی  اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی قابلِ فخر وصف نہیں ہے،کیونکہ اس وصف کے حصول میں انسان کا اپنا کوئی کما ل نہیں ہوتا تو پھر فخر کس بات پر؟فخر تو اس صفت پر ہو سکتاہے جس کو  آدمی نے اپنی جدوجہد سے حاصل کیا ہو،کسی قوم وقبیلے کے فرد بننے میں انسان کا  بھلا اپنا کیا کمال ہے؟اس لئے اس پر فخر کرنا نری عقل کے بھی خلاف ہے۔
یہ تو عرب وعجم کا مجموعی تجزیہ ہے، لیکن اگر صرف عجمیوں کے اعتبار سے اس کاجائزہ لیا جائے تو کتبِ فقہ میں یہ واضح اصول ہمیں ملے گا:”الاعاجم کلھم اکفاء”،ترجمہ: عجمی سارے کےسارے ایک دوسرے کے برابر اور ہم سر ہیں”،اس لئے اعاجم کا قومیت کو لیکر تفاخر کرنا مزید شنیع ہے۔لہذا جو جس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے وہ اگر متقی ہے تو عزت دار ہے اور اگر نہیں تو اس کی کوئی عزت نہیں۔قومیت کو لے کر نہ فخر کرنے کی ضروت ہے اور نہ احساسِ کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت ہے۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ خصوصاً چترال میں  ہمارے آس پاس بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی قومیت کے اعتبار سے احساسِ کمتری کے شکار ہوتے ہیں، انجام ِ کار وہ اپنی اصلی قومیت کو چھپاکر(حالانکہ سب کو معلوم ہوتا ہے)کسی دوسری قوم کی چادر کے نیچے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں،یاد رکھیں یہ بہت بڑا گناہ ہے،اس کو گناہ نہ سمجھنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔
صحیح البخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:اناکنا نقرا فیما نقرا من کتاب اللہ(ان لا ترغبوا عن آبائکم فانہ کفر بکم ان ترغبوا عن آبائکم)ترجمہ:قرآن کریم میں ہم یہ آیت بھی پڑھا کرتے تھے:تم اپنے باپوں سے اپنی نسبت کو ہٹاؤ مت،جو کوئی اپنے باپ کے علاوہ اپنی نسبت کرے گویا یہ تمہارے کفر کے مترادف ہے”۔
درست نسبت کی اسلام میں اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا راشاد ہے: ادعوھم لآبائھم ھو اقسط عند اللہ”،ترجمہ:ان کو ان کےباپوں کے نام سے پکارو،اللہ کے نزدیک یہی پورے انصاف کا ہے”،اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح ایک انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنی نسبت تبدیل کرے اسی طرح دوسرے کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کی نسبت تبدیل کرے۔لہذا اگر ایک انسان کسی قوم یا قبیلے کا نہیں ہے اور آپ کو اس کاعلم بھی ہے تو دوسرے قبیلے کی طرف اس کی نسبت کرکے پکارنا بہت بڑا گناہ ہے،مثلاً ایک بندہ محسود نہیں تو اس کو محسود کہنا یا ایک بندہ اخون نہیں ہے تو اس کو اخون کہنا،اس سے اجتناب لازم ہے،یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ اس میں ہم بہت زیادہ کوتاہی کرتے ہیں،جب پوچھا جاتا ہے کہ اس کا جواب عموما یہ دیا جاتا ہے کہ :ایسا کہنے سے وہ خوش ہوتا ہے”،بھلا کسی کو خوش کرنے کے لئے گناہ کمانا  اور اپنی آخرت تباہ کرنا کہاں کی خرد ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرامین سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے،حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: من ادعی الی غیر ابیہ وھو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام”ترجمہ(سیدنا) سعد رضی اللہ عنہ سےکہتے ہیں کہ میں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ جو شخص علم رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے”۔ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ ایسے شخص پر قیامت ہونے تک متواتر لعنت برستی رہتی ہے۔
مندرجہ بالا آیات ِکریمہ اور احادیث ِمبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں نسبت کی درستگی کو بہت اہمیت زیادہ اہمیت دی گئی ہےاور نسبت کو غلط یا خلط ملط کرنے کی شدیدمذمت کی گئی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام نے نسبت کی درستگی کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے لیکن اس کو عزت کا معیار ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس کو لیکر تفاخر کی اجازت دی ہے۔بلکہ ایک روایت میں آپ ﷺ نے اس کو بھی کفر اورزمانہ جاہلیت کا شعار قرار دیا ہے،اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بھی اپنی نسبت کو لے کر فخر کرتا ہے وہ بہت بڑا جاہل ہے۔ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
لیس المرء من قال کا ن ابی ولٰکن المرء من قال ھا انا ذا
یعنی آدمی وہ نہیں جو اپنے والد(قوم و قبیلے) کے بارے میں کہے کہ وہ ایسے ویسے تھے،لیکن آدمی وہ ہے جو اپنے بارے میں بات کرے۔
اس لئے مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی نسبت کو تبدیل نہ کریں اور نہ ہی دوسرے کی نسبت تبدیل کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین
نوٹ : یہ ایک جنرل مضمون ہے   کسی کے خلاف نہیں ۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔