ایک پراسرار وباء

………..محمد شریف شکیب…….

خیبر پختونخوا کی خوبصورت وادی چترال میں گذشتہ چند سالوں کے دوران ایک پراسرار وباء نے سینکڑوں افراد کو نگل لیا۔ہسپتالوں کے ڈاکٹر اور عام لوگ بھی اسے ہارٹ اٹیک قرار دے رہے ہیں لیکن اس کی علامات عارضہ قلب کی عام بیماریوں سے مختلف ہیں۔ امراض قلب کے معروف ڈاکٹر پروفیسر عدنان گل کہتے ہیں کہ دل کی بیماریاں کسی بھی عمر کے افراد کو لاحق ہوسکتی ہیں۔ تاہم ان کی علامات واضح ہوتی ہیں۔مریض کو نقاہت محسوس ہوتی ہے، پسینے چھوٹتے ہیں، کبھی کبھار الٹیاں شروع ہوتی ہیں، عمومی طور پر بائیں بازو، کنڈے اور سینے میں شدید درد عارضہ قلب کی واضح علامتیں ہیں، یہ علامتیں ظاہر ہوتے ہی اپنے دل کی خبر لینی چاہئے۔ تاہم چترال میں جس مرض نے حالیہ دنوں میں درجنوں نوجوانوں کو اپنا شکار بنالیا۔ ان میں سے اکثریت میں عارضہ قلب کی ظاہری علامات نہیں پائی جاتی تھیں۔قیاس یہی کیا جارہا ہے کہ چترال سے ملحقہ افغانستان میں کئی عشروں سے جاری جنگ اور خانہ جنگی کے دوران سابق سوویت یونین، امریکہ اور نیٹو فورسز کی طرف سے کیمیاوی ہتھیار بھی استعمال کئے جاتے رہے۔ افغان علاقہ بدخشان،واخان، بری کوٹ، اسمار، اسد آباد اور دیگر علاقوں سے چلنے والی ہوائیں براہ راست چترال میں داخل ہوتی ہیں ممکن ہے کہ اس علاقے میں کیمیاوی ہتھیاروں کے اثرات کی وجہ سے کینسر اور عارضہ قلب کے امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ طبی لحاظ سے لوگوں کی اس رائے میں کتنا وزن ہے؟ یہ تو تحقیق کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے تاہم اس رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چترال اور پشاور کے طبی اداروں سے حاصل کئے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی سات مہینوں کے دوران چترال کے مختلف علاقوں خصوصاً اپرچترال میں امراض قلب سے 72اور کینسر سے 28اموات واقع ہوئی ہیں، گذشتہ تین ماہ کے دوران اپرچترال کے خوبصورت گاوں ریشن میں چھ افراد اس پراسرار بیماری کا شکار ہوگئے۔ان میں 36سالہ امیر خان ولد رحمت ولی، الطاف حسین ولد عبدالصمد، حبیب الدین ولد گل نادر، خیر احمد ولد اشرف خان، مولائی خان ولد شکور خان اور بائیس سالہ کرن بی بی دختر امیر خان شامل ہیں۔کرن بی بی بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کی طالبہ تھی، چھٹیوں پر اپنے گاوں ریشن چترال گئی ہوئی تھی، 5اگست کو گھر کے باہر نہر کے کنارے بیٹھے بیٹھے دم توڑ گئی۔ریشن میں ناگہانی اموات کا سبب کچھ لوگ گلیشیر سے آنے والے پانی کو بھی گردانتے ہیں،ان کی رائے ہے کہ ریشن گول کے پانی کا کیمیاوی تجزیہ کرنا چاہئے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اس میں کوئی مہلک اور زہریلا مواد تو شامل نہیں ہورہا۔چترال میں ناگہانی اموات کی شرح میں غیر معمولی اور تشویش ناک اضافے کے باوجود محکمہ صحت اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والے نجی ادارے اور این جی اوز نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ناگہانی اموات کا شکار عام طور پر بیس سے پنتالیس سال کے نوجوان ہو رہے ہیں لیکن کسی کو اب تک یہ خیال ہی نہیں آیا کہ مرنے والوں کی یاد میں ہلکان ہونے کے بجائے ان وجوہات کا پتہ چلانے کے لئے آواز بلند کی جائے۔جن کے سبب قوم کے مستقبل کے معمار بے موت مر رہے ہیں۔اگر ناگہانی اموات کے دو تین سالوں کے اعدادوشمارجمع کئے جائیں تو پتہ چلے گا کہ اس دوران ناگہانی موت کا شکار ہونے والوں کی شرح گذشتہ پندرہ بیس سالوں سے بھی زیادہ ہے۔ہم ان سطور کے ذریعے عالمی ادارہ صحت، حکومت پاکستان، حکومت خیبر پختونخوا، میڈیکل یونیورسٹیوں اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والے دیگر اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ چترال میں ناگہانی موت کی اس تشویش ناک صورتحال کو فوری نوٹس لیا جائے اور ان اموات کے اسباب معلوم کرنے کے لئے تحقیقی ٹیمیں چترال بھجوائی جائیں تاکہ قوم کے باصلاحیت بیٹوں اور بیٹیوں کو اس بلائے بے درمان سے بچایا جاسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔