نوائے سُرود  ….. عید اور ناجائز منافع خوری   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہزادی کوثر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہِ ذوالحج کا چاند نظر آتے ہی قربانی کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور جانور کی تلاش بڑا مسلہ بن جاتا ہے کیونکہ پہلے تو مناسب جانور کا ملنا دشوار ہوتا ہے اور اگر قابل ِقبول مویشی مل بھی جائے تو اس کی قیمت قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ اس سال یہ ماہِ مبارک ہمارے لیے دوہری خوشی لے کرآ رہا ہے ایک تو عید کی خوشی اور دوسری ہے ہماری آزادی کی جو عید کے ساتھ ہی آرہی ہے، حسنِ اتفاق کہیے یا قسمت کہ دونوں بڑے دن ہییں اور دونوں ہی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں قربانی واجب ہے اور ایک آزاد ملک کا باشندہ ہونے کی حیثیت سے ملک کی عزت و وقار اور آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی قربانی کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ والدین کو ایک کی جگہ تین قربانیاں دینا پڑیں گی یعنی سنتِ ابراہیمی اور وطن کے ساتھ ساتھ بچوں کی فرمائش پورا کرنے کے لیے جیب کی قربانی، جو نہ چاہتے ہوئے بھی والدین کو سال میں کم از کم دو بار دینا پڑتی ہے۔ مگر اس سال ” یک نہ شد ” والا معاملہ ہے۔ شہر میں جگہ جگہ بکرے گائے اور بیل نظر آ رہے ہیں لیکن ان کی قیمت معلوم کر کہ سر چکرا جاتا ہے  بندہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا کِیا جائے؟ مویشی مالکان جانور کی مالیت یوں بتاتے ہیں گویا دس روپے ہوں،بڑے جانور ساٹھ اور پچھترہزار سے کم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، بکرے پچییس ہزار سے پینتیس ہزار کے درمیان جبکہ مریل سی گائےپچاس ہزار کی، کہجس کی پسلیاں بھی آسانی سی گنی جا سکتی ہیں ۔ اس  شہرِ نا پُرسان کی یہ حالت زار ۔دکانداروں اور مویشی مالکان کی من مانی اور ضلعی انتظامیہ کی بے بسی پہ رونے کو دل چاہ رہا ہے، جو نا جائز منافع خوروں کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور ہے۔ایسی صورت میں شکوہ شکایت کے سوا کوئی اور چارہِ کار نہیں رہتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے مذہی تہوار کے موقع پرقیمتیں گرا دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں کم کرنا تو دور کی بات اصل قیمت سے بھی تین گنا مہنگا فروخت کیا جاتا ہے،گویا ہمارے لیے پیسے کمانے کا یہی سنہری موقع ہے، دکاندار اصل نرخ سے دوگنا بتاتے ہیں ۔ ہر چیز کی قیمت اسمان کو چھو رہی ہے،کم آمدنی والے اور غریب افراد کا جینا محال ہو گیا ہے۔عید کی خوشی میں سب کو شریک ہونے کا حق ہے لیکن معصوم بچون کی خوشی کے پیشِ نظروالدین کو کتنی پریشانی ہوتی ہے یہ بچوں کو نہیں بتایا جا سکتا،ان کی معصومیت کے آگے اپنی غربت کا رونا نہیں رو سکتے کیونکہ یہ لاحاصل ہے۔۔۔۔۔

ہم اپنے بچوں سے کیسے کہیں کہ یہ گڑیا

ہمارے بس میں جو ہوتی تو ہم دلا دیتے

ان سب کے باوجود مجبور والدین کو قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے اپنے پھول جیسے بچون کے لیے کچھ نا کچھ خریدنا پڑتا ہے کیونکہ وہ عید کے دن ان کے ہونٹوں پہ لرزنے والی فریاد اوراشک آلود آنکھوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ان مذہبی تہواروں کی آمد غریب والدین کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتی نرخ ان کی کمر توڑ دیتے ہیں ۔کوئی جائز طریقہ ہونا چاہیے مذہبی اور انسانی حدود پھلانگ کر روپے کو باپ بنانا کسی شریف انسان کو زیب نہیں دیتا یہ تو دوسروں کی مجبوریوں سے فایدہ اٹھانے اور غربت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو گیا،ایسے میں ضروریاتِ زندگی کی لاحاصلی والدین کے لیے ذلت آمیز شکست بن کر ظاہر ہوتی ہے۔                                       ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔