داد بیداد……سفارت کاروں کا استثناء

تازہ خبر یہ ہے کہ پا کستان میں امریکی سفا رت کاروں کو 1961اور 1979والا استثنا تیسری بار مل گیا ہے یہ استثنا سفارت کاروں کو غیر معمو لی اختیارات دیتا ہے مثلاً وہ دفتر خار جہ کو اطلاع دیئے بغیر 25کلو میٹر کے سفارتی حدود سے با ہر گھوم سکتے ہیں میز بان حکومت سے اجا زت نامہ لئے بغیر ملک کے کسی بھی حصے میں جاسکتے ہیں کسی سے بھی مل سکتے ہیں اسلحہ لیکر گھوم سکتے ہیں ویانا کنو نشن کے تحت کوئی سفارت کار کا لے شیشے وا لی گاڑی استعمال نہیں کر سکتا اپنے دفترسے 25کلو میٹر کی حدود سے با ہر بغیر اجا زت نہیں جا سکتا اگر وہ کسی جرم میں ملوث پا یا جائے تو اس پر اسی قانون کا اطلاق ہو گا جس کا اطلاق دوسرے لو گوں پر ہو تا ہے وہ سفارتی گاڑی کی جگہ پرائیوٹ گاڑی استعمال کرے تو اُس پر سفارت کار کی تختی نہیں لگا سکتا اُس کو میز بان ملک میں آتشیں اسلحہ لیکر گھومنے کی اجا زت نہیں ہو گی سفا رت کار پر یہ پا بندی بھی عا ئد ہو تی ہے کہ وہ میزبان ملک کی حکومت سے اجا زت لئے بغیر کرایے پر گھر نہیں لے سکتا یہ اجا زت جنرل مشرف کے دور میں بھی نہیں دی گئی تھی یہی وجہ ہے کہ امریکی سفارت کاروں نے اُسامہ بن لا دن کے لئے ایبٹ آباد میں پا کستانی شہری کے نام پر مکان حا صل کیاتھا تازہ ترین خبر اخبارات میں ا ٓ گئی ہے کہ حکومت پاکستان نے امریکی سفارت کاروں کو ایک بار پھر استثنا ء یعنی انگریزی اصطلاح کی رو سے ایمیو نیٹی (Immunity) دیدی ہے یاد رہے کہ فیلڈ مار شل ایوب خان نے 1961ء میں امریکی سفارت کاروں کو پاکستان میں اسلحہ لیکر آزادانہ گھومنے اور حکومت پا کستان کی اجا زت کے بغیر 25کلو میٹر کی سفارتی حدود سے باہر سفر کرنے کی کھلی اجا زت دیدی تھی یہ استثنا ء 1973میں وا پس لے لی گئی 6سال بعد 1979ء میں جنرل ضیا ء الحق نے امریکی سفارت کاروں کو ایک بار پھر استشنیٰ دیدیا 2011ء میں امریکی ایجنسی بلیک واٹر کے لئے کام کرنے والے اہلکار ریمنڈڈیوس نے لا ہور میں تین پا کستانیوں کو قتل کیا اور مو قع پر اسلحہ سمیت رنگے ہاتھوں پکڑ ا گیا تو امریکی حکومت نے پرانے معا ہدے دکھا کر استثنا ء حا صل کرنے کی کوشش کی لیکن استثناء نہیں ملی کیونکہ ریمنڈڈیویس امریکی سفارت خانے کا ملا زم نہیں تھا سفارت کار کے ذیل میں نہیں آتا تھا اس کو بچا نے کے لئے سعودی شاہی خاندان کا سہا را لیا گیا، سعو دی شا ہی خاندان نے مقتو لین کے ورثا کو خون بہا دے کر 3پا کستا نیوں کے قا تل کو قانون کے چنگل سے چھڑا لیا ما ضی قریب میں دوسرا واقعہ 7اپریل 2018ء کو پیش آیا جب امریکی سفارت خانے کے فو جی اتاشی کرنل جو زف ایما نو یل ہال نے نے اپنے کار کی ٹکر سے 22سا لہ پاکستانی نو جوان کو اسلا م آباد کی سڑک پر قتل کیا کوہسار پو لیس سٹیشن میں قا تل کے خلا ف ایف آئی آر درج کی گئی قا تل کو گرفتار کرکے عدا لت میں پیش کیا گیا یہ دوسر ا مو قع تھا جب امریکی محکمہ خار جہ نے سفارت کا رکو حا صل استثناء کا مسئلہ اُٹھا یا پرا نا معا ہدہ دکھا یا وقوعہ کے 5ہفتے بعد 15مئی2018 کو کرنل جو زف نہ صرف رہا ہوا بلکہ خصو صی C-130طیا رے کے ذریعے اس کو امریکہ لے جا یا گیا اس مو قع پر امریکی سفارت خانے کی طرف سے بیان آیا کہ کرنل جو زف پر امریکی قوانین کے تحت امریکہ میں مقدمہ چلا یا جائے گا مگر یہ بیان جھوٹا ثا بت ہوا کرنل جو زف کا امریکہ میں کوئی ٹرائل نہیں ہوا پاکستانی نو جواں کا خون رائیگاں گیا بقول فیض احمد فیض ؎
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھارزق خا ک ہوا
چین، روس، ایران اور دوسرے مہذب ملکوں کے سفارت کار قانون کی پا سداری کرتے ہیں سفارتی حدود کو پا مال نہیں کرتے اس لئے وہ استثنا ء کی درخواست نہیں کرتے صرف امریکی سفارت کار Immunity کی درخواست کرتے ہیں کیونکہ وہ حر کتیں ایسی کرتے ہیں کہ قا نون کی گرفت میں آسکتے ہیں 15مئی 2018ء کے بعد عوا می دباؤ آیا،پرنٹ اور الیکٹرا نک میڈیا میں پے درپے رپورٹیں آگئیں تو حکومت نے امریکی سفارت کاروں کو دی گئی استثنا واپس لے لی ایک سال 3ما ہ بعد امریکی سفارت کاروں کو ایک بار پھر استثنا ء مل گیا ہے لگتا ہے اب وہ لمبا ہاتھ مارنے والے ہیں بعض مبصرین نے یہ سوال اٹھا یا ہے کہ امریکی سفارت کاروں کو سعو دی عرب، افغا نستان اور پا کستان کے سوا کسی اور ملک میں بھی ا س طرح کا استثنا حا صل ہے یا نہیں؟ تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ جس ملک پر امریکہ کا فو جی قبضہ ہو ا وہاں امریکیوں نے اس طرح کا استثنا حا صل کیا مثلاً کویت، عراق اور جنو بی سو ڈان میں امریکیوں کی نقل و حر کت ہر طرح کی سفارتی پا بندیوں سے آزاد ہے اب سو چنا یہ ہے کہ فیلڈ مار شل ایوب خان،جنرل یحیٰ خان،جنرل ضیاء الحق، اور بعد میں آنے والی حکومتوں کے دور میں پاکستان کن مما لک کی صف میں کھڑ ا تھا اس وقت پا کستان کن مما لک کی صف میں شا مل ہو اہے؟ فیض نے کیا بات کہی ؎
ہم سے کہتے ہیں اہل چمن غریبان وطن
تم کو ئی اچھا سا رکھ لو اپنے و یرانے کا نا م

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔