وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے

کالم نگار:
مفتی محمد غیاث الدین
پروفیسر اسلامیات
جی ڈی سی چترال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22اگست 2019 کی صبح سویرے ایک ان نون نمبر سے کال آئی، میں نے یہ سوچ کر کال ریسیو کی کہ شاید کسی نے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے اور عموماً ان نون نمبرز سےاسی طرح کی ہی کالز آتی ہیں، لیکن اتنے سویرے کون مسئلہ پوچھ رہا ہوگا یہ خیال بھی کھٹک رہا تھا، اس سراسیمی میں فون ریسیو کیا تو پتہ چلا کہ یہاں معاملہ ایسا نہیں تھا یہاں تو کوئی استاذ محترم جناب عبدالجہان خان ساکنہ موری پائین کی ہمیں داغ مفارقت دینے کی خبر سنا رہا تھا، یہ اندوہناک خبر سن کر ایک لمحہ کے لئے ایسا لگا کہ گردشِ ایام تھم گئی، دریائے چترال کا شور،پرندوں کی چہچہاہٹ،باد صبا و نسیم کی سحر انگیزی اور چترال کے سبزہ زار اور مرغزار سب ختم سب ہو گئے۔ خبر دینے والے نے یہ اطلاع دے کر فون کاٹ دیا کہ سہ پہر چار بجے نماز جنازہ کا ٹائم رکھا ہے۔
بلاشبہ سب نے اس دنیا میں آنا ہے اور پھر سب چھوڑ چھاڑ کر واپس جانا ہے،آنا مقدمہ ہے اور جانا خاتمہ، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جِن کے بچھڑنے کے بعد بے ساختہ دل کہہ اُٹھتا ہے:
بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
 استاذ محترم عبدالجہان خان نابغہ روزگار شخصیت  تھے، سنت رسول سے آراستہ ہنس مکھ چہرہ، سادہ مزاج، سادہ لباس لیکن صاف و شفاف، تواضع و انکساری کے پیکر جس کی گواہی ہر وہ انسان بلا جھجک دے گا جس کی ان سے ایک دفعہ بھی ملاقات ہوئی ہو، آپ اپنے شاگردوں سے بھی ایسے ملتے کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا، آپ کے اخلاق حسنہ دیکھ کھبی کھبی ہمیں اپنے اخلاق پر شرمندگی کا احساس ہوتا،آپ سے ایک بار ملنے والا بار بار ملنے کی خواہش کرتا، جس مجلس میں آپ ہوتے وہ مجلس کھبی بور نہ ہوتی،اپنی خوبصورت خوبصورت باتوں سے مجلس کو زعفران بنا دیتے، آپ استاذ الاساتذہ تھے، آپ کو دوسرے مضامین کے علاوہ ریاضی سے خاص شغف تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مضمون میں مہارت تامہ عطاء فرمائی تھی، آج آپ کے شاگرد ہر شعبہ میں ملک وقوم کی بہترین خدمات سر انجام دیتے ہیں جو یقیناً آپ کے اخلاص کا ثمرہ ہے۔ تشنگانِ علم کے پیاس بجھانے کے علاوہ آپ کے سینے میں علاقائی مسائل کا درد بھی تھا، آپ نہایت متحرک سوشل ورکر تھے، آپ کو اپنی ذات کے مقابلے میں دوسروں کی زیادہ فکر رہتی، کلاس میں  طلباء علم کا درد اور کلاس سے باہر عوام کا درد سینے میں موجزن تھا شاید یہی وجہ ہے کہ آپ کے بے شمار شاگرد اور دوست ہونے کے باوجود کوئی نہ آپ سے ناراض ہے اور نہ آپ کسی سے خفا تھے۔۔۔
مختلف سرکاری سکولوں میں آپ نونہالان قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہے،آپ کی آخری پوسٹنگ گورنمنٹ ہائی سکول کوغذی میں تھی،قریبا ایک سال پہلے ریٹائرمنٹ کی عمر مکمل ہونے سے قبل آپ نے ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی،حال ہی میں اپنے دو صاحبزادگان کی شادی کروانے کی ذمہ داری بھی نبھائی تھی، ایسا لگتاہے کہ شاید آپ کو اپنے جانے کا احساس ہو گیا تھا،ساری ذمہ داریاں نبھا کر بس اللہ رب العزت کی طرف سے بلاوے کے انتظار میں تھے۔بائیس جولائی 2019 کی صبح سویرے چار بجے بلاوا آگیا، حرکت قلب رک گئی اور آپ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔اللہ تعالیٰ استاذ محترم کی کامل مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔
سب کہا ں کچھ لا لہ ء و گل میں نما یا ں ہو گئیں
خاک میں کیا صور تیں ہو نگی کہ پنہا ں ہو گئیں
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔