دھڑکنوں کی زبان…. ”کشمیر بنے گا پاکستان“

یہ ہائی سکول بمبوریت کے ایک بچے کے منہ سے نکلا ہواجملہ تھا لیکن یہ جملہ ادا کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں روشنی تھی اور ایک عزم واستقلال تھا۔۔ہم پہ ایک دور گزرا ہے۔کہ ہمارے اسی طرح کے ایک بچے کے منہ سے یہ مبار ک جملہ نکلتا۔۔”لے کے رہیں گے پاکستان“ تو اغیار ہم پر ہنستے تھے۔۔اس زمانے میں ہم بہت نہتے تھے۔ہمارے ہاتھوں میں چھڑی ہوتی تھی۔۔پیٹ خالی تھا۔بدن پہ کپڑے نہیں تھے۔ہاتھوں اٹھائے چھڑی ہمارا ہتھیار تھا۔۔ہمارا آقا دنیا پر حکومت کر رہا تھا۔۔ہمارا دشمن بہت مضبوط تھا۔۔بلکہ ہمارے دشمن ایک نہیں بہت تھے۔۔مگر ہم حق پر تھے۔۔ہم پرخلوص تھے۔چشم فلک نے دیکھ لیا کہ ہم نے آزادی حاصل کر لی۔۔ہم جیت گئے۔۔غیرت جیت کا مقدر ہوتی ہے۔۔جہان غیرت ہوتی ہے وہاں پہ جیت ہوتی ہے۔اب اس بچے کے منہ نکلا ہوا یہ جملہ میری یادوں کی سکرین میں پھر تاریخ دہرا دی۔۔”کشمیر بنے گا پاکستان“۔۔آزاد تو ہو گا۔کشمیریوں کی آواز میں آواز ملانے والے بچے نے نعرہ لگایا۔۔”ہم چھین کے لیں گے آزادی“۔۔ہائی سکول بمبوریت میں یہ ماہانہ بزم ادب کا پروگرام تھا۔منتظمین نے یہ پروگرام کشمیریوں کے نام کیا تھا۔ پروگرام کامنتظم اعلی عبد العزیز استاذ نے اچھا کیا تھا کہ سب بچوں کے ذہنوں میں یہ نعرہ بیٹھ جائے کہ کشمیری آزاد ہونگے۔۔ہم نہتے تھے تو آزاد ہوئے۔۔ہم خالی ہاتھ تھے تو مضبوط دشمن دم دبا کے بھاگا۔اب دشمن بھی کمزور ہم بھی اس وقت کی نسبت مضبوط۔بس خلوص اور استقلال کی حاجت ہے۔کشمیری کوئی غلط بات نہیں کہہ رہے۔۔اس مہذب دنیا میں ظلم کے لئے جگہ نہیں لیکن اس مہذب دنیا میں کمزور اور مجبور کے لئے بھی جگہ نہیں۔حقوق چھین لینے پڑتے ہیں۔۔سارا کفر ایک طرف۔۔اگر کوئی کافر عورت کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھے تو انسانی حقوق پامال ہوجائیں گے۔حقوق انسانی کے چمپین کی دوڑئیں لگیں گی۔۔اس کو اٹھایا جائے گا۔۔مگر اس کے برعکس کسی مسلمان عورت کے جسم و جان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔تو کفر خاموش ہوگا۔۔انسانی حقوق دفن ہو جائینگے۔اس سمے حق چھینا پڑتا ہے دوستو! خون بہانا پڑتا ہے اور نعرہ لگانا پڑتا ہے ”ہم چھین کے لیں گے آزادی“۔بچے کی آنکھ میں غیرت چمک بن کے اُتری تھی۔اور اس چمک میں کشمیرجنت نظیر صاف نظر آرہا تھا۔بچوں نے کمال عقیدت سے اپناپروگرام کشمیریوں کے نام کر دیا۔اور بمبوریت کی مٹی کو گواہ کر دیا کہ کشمیرضرور آزاد ہو گا۔۔کشمیر کی تاریخ داستان حرم کی طرح سادہ و رنگین ہے۔۔تقسیم ہندکے وقت اگر یہ معمولی اہمیت کی ریاست ہوتی تو اس کو اتنامتنازعہ نہ بنایا جاتا۔۔یہ ہندوستان کے لئے بھی موت و حیات کا سوال تھا پاکستان کے لئے بھی۔۔اس کا جغرافیہ ہی ایسا ہے۔اس کے ساتھ لداخ،اسکردو اور گلگت ہے جو چین کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔یہ پاکستانی دریاؤں کاراستہ ہے اس کے کھونے سے ہندوستان کوپانی سے محروم ہونا پڑتا ہے۔یہ سیاحوں کی جنت ہے یہ کسی بھی ملک کی شان و شوکت ہے اس لئے بھارت اپنی پہچان کھونا نہیں چاہتا۔اگر یہ ہندؤوں کی سر زمین ہوتی تو پاکستان کو بات کرنے کا بھی حق نہ تھا۔لیکن یہ اسی فیصد مسلمانوں کی سر زمین ہے۔۔مسلمان انسانی حقوق کے عالمبرداروں،اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کو چلنچ کر رہے ہیں کہ کس بنیاد پہ کشمیران کونہیں مل رہا۔یہی ان اور دنیا ئے کفر کا المیہ ہے۔۔اب سب خاموش تماشائی ہیں۔۔اسلامی ممالک کی تنظیم سوئی ہوئی ہے۔۔اقوا م متحدہ سے توقع بھی نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کے حق کی حمایت کرے۔لے دے کے کشمیریوں کی غیرت اور جذبہ حریت و قربانی ہے جو کام آئے گا۔۔دنیا نے دیکھی۔کہ یہ جذبہ کسی زمانے میں چینا میں کام آیا۔۔الجزائر میں کام آیا۔۔برصغیر میں کام آیا۔چیچنیا میں کام آیا۔۔افغانستان میں کام آیا۔۔یہی جذبہ کشمیرمیں کام آئے گا۔۔سوال ہے کیا کشمیری افغانستان کی تاریخ دھرا سکتے ہیں۔ان کو دھرانا چاہیے کہ منچلے پاکستانی ان کے دوش بدوش کھڑے ہیں۔۔یہ عجیب قوم ہے اس کوبندوق چلانا آتا ہے۔۔یہ جب دہشت گردی کا شکار تھی تب بھی اطمنان سے تھی عصر کی نمازکے وقت جس مسجدمیں دھماکا ہوتا یہ پاگل قوم مغرب کی نمازکے لئے اسی مسجدمیں جمع ہوتی اس کو موت کا کبھی خوف نہیں رہا۔۔ایک وہ قوم ہے جوپولوامہ میں ایک”ڈزیاڈوز“ سے لرزہ بر اندام ہے ۔۔آگ پر ہاتھ ڈالناآسان کام نہیں۔۔تاریخ خود دیکھے گی کہ آگ اور خون اور جنون کے اس کھیل کانتیجہ کیا ہوتا ہے۔۔ہائی سکول بمبوریت کی یہ تقریب اس بات کا گواہ ہے کہ بے مثال غیرت افراد میں سرایت کر گئی ہے۔۔
پھونکوں سے خاک کیا جو حفاظت خداکرے
وہ شمع کیوں بجھے جسے روشن خدا کرے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔