دادبیداد….گورنمنٹ اور حکومت

خبر آئی ہے کہ خیبر پختونخوا کے تعلیمی بورڈ ایڈھاک بنیا دوں پر چل رہے ہیں صو بے کی کئی یو نیورسٹیاں ایسی ہیں جن کے سر براہ کا فیصلہ ہونا باقی ہے ایک خبرمیں ایسے 29محکموں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کے سر براہ کی حیثیت سے اضا فی ڈیو ٹی والے کام چلا رہے ہیں یہ بھی ایک خبر ہے کہ 2015کے سیلاب میں سڑ کوں اور پیڈوکے بجلی گھروں کو جو معمولی نقصان پہنچا تھا اس پر 4سالوں میں کام شروع نہیں ہوا یہ بھی ایک خبر ہے کہ چترال میں اس سال 4جو لائی کے سیلا ب نے آپ پا شی اور آبنو شی کی 4سکیموں کو معمولی نقصان پہنچا یا تھا دو ماہ گذر نے کے باو جو د سکیموں کی مر مت پر کام شروع نہیں ہوا ایم پی اے ہا سٹل پشاور کی ایک محفل میں ان خبروں کا ذکر چھڑ گیا اور بقول شاعر ؎
ذکر چھڑ گیا جب قیا مت کا
بات پہنچی تیر ی جوانی تک
ڈی آئی خان، کر ک، بنوں اور مانسہرہ کے تذکرہ کرتے ہوئے پشاور کی کہا نیاں آگئیں ایک دل جلے نے کہا ہمارے صو بے میں گورنمنٹ اور حکومت کے نام سے دو مشہور کردار گذرے ہیں ”گورنمنٹ“کا اصل نام کسی کو معلوم نہیں البتہ حکومت کا اصل نام میر محمد خان تھا دونوں دما غی لحاظ سے صحت مند تھے تاہم دونوں نے سوا نگ رچا یا تھا گورنمنٹ اور حکومت نا م رکھ کر اس نا م کے پر دے میں بڑے بڑے حقا ئق سے پر دہ اُٹھا تے تھے گورنمنٹ کا تکیہ کلام ہی گورنمنٹ تھا اس وجہ سے یہ لفظ اُن کا نام پڑگیا نا وا قف لو گ اُن کو ابنا ر مل یا فاتر العقل سمجھتے تھے لیکن وہ زیرک، دانا، ہو شیار اور فر زانہ تھا دیوانہ ہر گز نہیں تھا جنرل ضیا کے دور میں روسی طیاروں نے ایک گاوں پر بمباری کی زخمیوں کو ہسپتالوں میں داخل کیا گیا مرنے والوں کے جنا زے اُٹھے ہر ایک کی زبان پر تھا اللہ پاک کی قدرت اور اس کی رضا ہے صبر اور شکر کرنا چا ہئیے گورنمنٹ کہتا تھا خواہ مخواہ اللہ پا ک کو ذمہ دار مت ٹھہراؤ، گورنمنٹ اُدھر، گورنمنٹ اِدھر، 10مر گئے 50زخمی ہو ئے گورنمنٹ خو ش ہم بھی خوش،لو گ کہتے تھے یہ شخص دیوانہ ہے مگر وہ جو کہتا تھا وہ بات سچ تھی امریکہ افغا نستان میں روس کے خلاف لڑ رہا تھا پاکستان خواہ مخواہ امریکہ کی مدد کر رہا تھا امریکہ کا سلحہ اپنے ہاں سٹاک کرتا تھا امریکہ کے فو جیوں کو راستہ دیتا تھا مزدور اور گائیڈ دیتا تھا پرائی جنگ میں حصہ دار بن چکا تھا گورنمنٹ اُدھر اور گورنمنٹ اِدھر کا یہی مطلب تھا تم وہاں کے جنگ میں حصہ دار نہ بنو گے وہ تمہارے اوپر بمباری نہیں کرے گا ایک بار سیلاب آیا سڑ کیں اور نہریں بر باد ہوئیں پا نی کے نلکے متا ثر ہوئے تو گورنمنٹ کدال اور بیلچہ لیکر آگیا اس نے کہا میں گورنمنٹ ہوں، تم گورنمنٹ ہو، یہ بھی گورنمنٹ ہے مطلب یہ تھا گورنمنٹ کبھی تمہاری مدد نہیں کرے گی اپنا کام خود کرو جس کو تم گورنمنٹ کہتے ہو یہ کوئی گورنمنٹ ہی نہیں لو گ اس کی بات سمجھتے نہیں تھے اس لئے اس کو دیوانہ کہتے تھے ؎
غزا لاں تم تو واقف ہو کچھ کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گذری
”حکومت“ کا معا ملہ گورنمنٹ سے ذرا مختلف تھا حکومت دیکھنے میں با لکل دیوانہ نہیں لگتا تھا نارمل انسان تھا کاروبار میں، معاملات میں، عبادات میں، خو شی، غمی میں با لکل نا رمل تھا بات صر ف اتنی سی تھی کہ اُس نے 800مر بع کلو میٹر کے رقبے پر دو لاکھ آبادی والے تین تحصیلوں میں اپنی خیا لی حکومت قائم کی ہوئی تھی اور بے حد سنجید گی کے ساتھ بڑی بڑی مخفلوں میں اپنی حکومت کا ذکر کر تا تھا اس کی خیا لی حکومت میں با قا عدہ فوج تھی با قاعدہ بیورو کریسی تھی با قاعدہ عدا لتیں تھیں معا شرے کے جیتے جا گتے کر داروں کو اس نے بڑی بڑی ذمہ داریاں دی ہوئی تھیں فلاں انٹیلی جنس کا سر براہ ہے، فلاں کمانڈر انچیف ہے فلاں قاضی القضا ٰۃ ہے، فلاں پو لیس کا سر براہ ہے اور فلاں شہر ی صفائی کا نگران ہے سر براہ ہے اس کا تکیہ کلا م تھا ”رپورٹ“ علیک سلیک اور خیریت کے حال احوال پوچھنے کے بعد وہ سوال کا انتظار کئے بغیر خود شروع ہو جا تا
”رپورٹ آگئی ہے میری حکومت اچھی طرح کام کر رہی ہے فوج کو تیا ر رہنے کا حکم دیا گیا ہے“ اس کے بعد وہ حا لات حا ضرہ کی منا سبت سے اپنی حکومت پر ایسا تبصرہ کر تا کہ”خدا دے اور بندے لے“ اس کا ہر تبصرہ سیا سی ہجو یا پو لیٹکل سٹائیر کے زمرے میں آ نے کے قابل ہو اکر تا تھا ایک اور کردار رہ رہ کر یا دآ تا ہے پتہ نہیں اس کا نام کیا تھا وہ بہت پڑھا لکھا شخص معلوم ہوتا تھا خود کو وزیر اعظم کہتا تھا اور گاوں میں وزیر اعظم کے نام سے مشہور تھا اُس کا ایک خیا لی دفتر تھا وہ اس خیالی دفتر سے احکا مات جا ری کر تا اور ہر ایک سے کہتا ”جا ؤ ان کو بتا ؤ وزیر اعظم نے حکم دے دیا ہے“ جب ادارے ایڈ ہا ک بنیا دوں پر چلتے ہیں عوام کے مسا ئل حل نہیں ہوتے،سیلاب کے متا ثرین بے یا ر مدد گار در،در کی ٹھوکریں کھائے پھر تے ہیں تو ہمیں وہ والے گورنمنٹ، حکومت اور وزیر اعظم یا د آجا تے ہیں وہ کیا لو گ تھے جو گذر گئے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔