واپڈا،پیسکو اور چترال

بشیر حسین آزاد سے۔۔۔۔۔۔
واپڈا،پیسکو اور بجلی کے کاغذات اور دفترات میں چترال کو دوبئی،کویت اور سعودی عرب سے زیادہ دولت مند قرار دیا جاتا ہے۔پیسکو پشاور سے چترال ٹرانسفر ہونے والا اہلکار یا افیسر دوبئی،کویت اور سعودی عرب کا ویزا لینے سے انکار کرتا ہے کیونکہ چترال میں لوگ میٹر ریڈنگ کے بغیر منہ مانگی بل ادا کرتے ہیں۔میٹر کے پیسے 6ہزار کے بجائے15ہزار دے دیتے ہیں اور بینک لے جانے کی جگہ دفتر میں جمع کرتے ہیں۔اگر پیسکو حکام کی خوش قسمتی سے کسی محلے کا ٹرانسفارمر جل جائے تو چترال کے لوگ واپڈا کو تکلیف نہیں دیتے۔بازار سے میکنک بلاکر50ہزار یا 80ہزار روپے چندہ کرکے ٹرانسفارمر کی مرمت کردیتے ہیں۔اور بازار کا میکنک اپنی حق حلال کی کمائی کا نصف واپڈا کو ادا کرتا ہے۔چترال دنیا کا انوکھا ضلع اور واپڈا والوں کی جنت ہے۔پاکستان کے دوسرے اضلاع میں واپڈا کو جو مسائل ہیں وہ چترال میں دور دور تک نظر نہیں آتے۔چترال کو نڈا کلچر سے پاک ہے۔بلوں کی نادہندگی صفر ہے۔صرف بڑے سرکاری دفاتر سال ڈیڑھ سال بل نہیں دیتے۔عوام ہر ماہ بل دیتے ہیں اور10گنا زیادہ دیتے ہیں۔جہاں بلاجواز لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔اس کے باوجود پیسکو کے چترال کا دفترپاکستان میں واپڈا کا واحد دفتر ہے جہاں جلی حروف میں حکمنامہ لکھا گیا ہے کہ شام کے بعد ٹرانسفارمر آگ پکڑے،کسی لائن میں شارٹ سرکٹ کا نقص آئے۔کوئی اور شکایات ہوتو پیسکو دفتر سے رجوع نہ کریں۔شام سے لیکرصبح 10بجے تک پیسکو کا کوئی اہلکار دستیاب نہیں ہوگا۔چنانچہ ٹرانسفارمر خراب ہو یا شارٹ سرکٹ واقع ہوجائے تو لوگ پولیس اسٹیشن میں اطلاع دیتے ہیں۔پولیس اور ریسکیو والے پہنچ جاتے ہیں۔لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔بجلی ہفتہ دو ہفتہ بعد لوگوں کی محنت اور اپنی مدد آپ کے ذریعے بحال کی جاتی ہے۔چنانچہ یہ لطیفہ مشہور ہے کہ چترال میں پیسکو کا دفتر جلادیا جائے،بند کردیا جائے،تب بھی فرق نہیں پڑے گا۔صارفین اپنے لائنوں کی خود دیکھ بھال کرینگے،بل خود ادا کرینگے،ٹرانسفارمر خود لائینگے۔بازار کے میکنک کو بھی فائدہ ہوگا۔لوگ بھی خواہ مخواہ ایک فضول دفتر کا بے کار چکر لگانے سے بچ جائینگے۔اخباری رپورٹروں نے پیسکو کا موقف جاننے کے لئے رجوع کیا تو پیسکو کے ذمہ دار حکام ایس ڈی او،لائن سپرٹینڈنٹ اور متعلقہ شعبوں کے افیسروں نے بتایا کہ ٹرانسفارمر کی مرمت کا فنڈ7ماہ بعدملتا ہے اگر صارفین انتظار کرینگے تو7ماہ بعد ہم مرمت کرینگے،6ہزار روپے والا میٹر ڈیڑھ سال بعد آتا ہے۔لوگ انتظار نہیں کرتے اس لئے15ہزار روپیہ خرچ کرتے ہیں۔میٹر کا تار ہمارے پاس 40گز دستیاب نہیں ہوتا لاہور سے لانے میں وقت لگتا ہے اس لئے لوگ خود خرید لیتے ہیں اور رات کے وقت ہم اپنے ملازمین کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔اس لئے حکم یہ ہے کہ رات کو شکایت نہ کریں۔اُنہوں نے کہا کہ لوگ میٹرریڈنگ کے بغیر بل دیتے ہیں۔تو خواہ مخواہ میٹر ریڈنگ کی کیا ضرورت ہے؟
ہم نے صحافتی اصولوں کے عین مطابق واپڈا اور پیسکوکا موقف بھی پیش کردیا ہے۔اب یہ ایف آئی اے،انٹی کرپشن اور نیب کا کام ہے کہ وہ پیسکو چیف،واپڈا چیئرمین یا ایگزیکٹیو انجینئر کے خلاف تحقیقات کرکے عوام کو ریلیف دیدیں۔اگر نیب نے پیسکو اور واپڈا کے100یا ڈیڑھ سو حکام کو ہتھکڑیاں لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا توچترال کبھی اُن کے دوبئی،کویت اور سعودی عرب جیسا دولت مند اور منافع بخش ضلع نہیں رہے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔