داد بیداد….انصاف کا پیمانہ

چیف جسٹس آصف سعید کھو سہ نے ایک مقدمے کی سما عت کے دوران کہا ہے کہ ہماری پوری تو جہ زیر التوا ء مقدمات کو نمٹا نے پر ٹکی ہوئی ہے ملک کے ”قاضی القضا ۃ“ کا یہ احساس بہت حو صلہ افزا ہے کہ زیر التوا ء مقدمات کی وجہ سے عدلیہ بد نام ہورہی ہے فر یادی انصاف سے محروم ہورہے ہیں اور انصاف کا خون ہو رہا ہے انصاف کا پہلا پیمانہ یہ ہے کہ انصا ف ہو تا ہوا نظر آنا چا ہئیے دوسرا پیمانہ یہ ہے کہ انصاف وقت پر ملے وقت گذر نے اور فر یادی مرنے کے بعد انصاف ملے گا تو کس کام آئے گا؟ ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سیر ہو نے تک“ چیف جسٹس کی توجہ کے لئے دو خواتین کے مقدمات کی مثا لیں کا فی ہو نگی 77سالہ بڑھیا نے فارسی سند کا اردو ترجمہ کراتے ہوئے اپنی داستان سنا ئی شوہر مر گیا، دو بچیاں یتیم ہو گئیں میراث پر دولت مند شخص نے قبضہ کر کے بیوہ اور یتیموں کو گھر سے نکا لا یہ بھٹو کے حکومت کا زما نہ تھا وکیل کی فیس دو ہزار روپے تھی موٹر کا کرایہ 20روپے تھا ایک پیا لی چائے دو روپے میں آتی تھی تندور کی روٹی بھی دو روپے کی ہو اکر تی تھی اب وکیل کی فیس 5لاکھ روپے اور موٹر کا کرایہ 500روپے ہو گیا میری بڑی بیٹی 7بچوں کی ما ں بن چکی ہے چھوٹی لڑکی کے 5بچے ہیں،بڑا نوا سا ڈاکٹر اور چھوٹا نوا سا وکیل ہے مقدمہ 4دفعہ وا پس اُسی عدا لت میں آیا ہے جہاں سے شروع ہو اتھا کیونکہ مخا لف فریق کے پا س بے تحا شا دولت ہے وہ خر چ کر تا ہے اور فیصلہ ہونے نہیں دیتا“ بڑھیا کی با توں سے ہم نے اندا زہ لگا یا کہ یہ مقدمہ دیوانی عدا لتوں میں 42سالوں سے چل رہا ہے بڑھیا جب بیوہ ہو گئی تو اس کی عمر 34سال ہو گی۔
دوسری خا تون پڑھی لکھی ہے اُس نے انگریزی ادب میں ملک کی سب سے بڑی یو نیورسٹی سے ماسٹر ڈگری لی ہوئی ہے ٹیچر ز ایجو کیشن کی دو ڈگریاں اور 4سر ٹیفیکیٹس اُس کے پاس ہیں 2016میں اس نے NTSکا امتحا ن پا س کیا اپنے یو نین کونسل میں ٹا پ پو زیشن پر آگئی ایزی لوڈ والوں نے کہا ایک سال کی تنخواہ دیدو وہ ایک سال کی تنخوا ہ ایزی لوڈ نہ کر سکی پو سٹ لینے سے محروم ہو گئی اس نے عدالت سے رجوع کیا پہلی پیشی میں سارے ثبوت عدالت کے سامنے رکھے گئے مخا لف فریق نے چکمہ دیدیا کبھی وکیل غیر حاضر کبھی فریق مخا لف غیر حا ضر، دو سا لوں تک مقدمہ چلتا رہا دو سال بعد فیصلہ آیا اُس نے ایک سال کی تنخوا ہ ایزی لوڈ نہیں کی تھی اُس کے برابر رقم عدالتی کاروائی پر خرچ ہوئی جس کا حق نہیں بنتا تھا وہ دو سالوں سے تنخواہ لے رہی ہے اب وہ ایک سال کی تنخوا ہ اپیل پر لگائے گی تو مزید دو سال ضائع ہو جا ئینگے 4سال بعد انصاف ملا تو اُس کو انصاف کیسے ما نا جائے گا؟ الیکشن پٹیشن کے فیصلے 5سال بعد آتے ہیں جب فریق مخا لف وزیر یا پارلیما نی سکر ٹری بن کر قو می خزا نے سے کروڑوں روپے نکا ل چکا ہو تا ہے اور اسکی نمائند گی کی مد ت پوری ہو چکی ہو تی ہے اس فیصلے سے فر یا دی کو کیا ملتا ہے چترال سے ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر سبحان الدین کے خلاف 2004ء میں عدم اعتما د کی تحریک منظور کی گئی اُس نے ڈپٹی کمشنر کے اختیار کو چیلنج کیا اب اُس حلقے میں ضمنی انتخا بات کو ملا کر تین انتخا بات ہو چکے ہیں مقدمہ اب تک زیر التواہے اب سائل کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے سائل زو ر نہ لگائے پیسہ خرچ نہ کرے تو مقدمہ کا ز لِسٹ میں جگہ ہی نہیں پا تا یہ عدا لتی التواء کا شہکار مقدمہ ہے اس لئے انگریزی مقولے کا اردو ترجمہ باربار دہرایا جا تا ہے کہ انصاف میں تا خیر انصاف سے انکا ر کے مترا دف ہے چیف جسٹس اگر زیر التواء مقدمات کی تعداد کو اگلے 5سالوں میں 21لاکھ سے صفر پر لا نا چاہتے ہیں تو چار ایسے کام کریں جو آئیندہ کے لئے رہنما اصول بن جائیں گے پہلا کام یہ ہے کہ آئینی مقدمات کے لئے ایک الگ عدالت تشکیل دیں وہ صرف آئینی مقدمات سُنے تاکہ سپریم کورٹ کا قیمتی وقت لا یعنی بحثوں پر ضائع نہ ہو ”نظریہ ضرورت“ کی نخو ست سے عدالت عظمیٰ کا دامن ہمیشہ کے لئے پا ک ہو دوسرا کام یہ ہے کہ فوجداری، اور دیوانی مقدمات میں ٹرائل اور اپیل کے لئے ٹائم فریم مقرر کریں جو دو سالوں سے زیا دہ نہ ہو تیسرا کام یہ کریں کہ امتحا ن، میرٹ لِسٹ اور ملا زمت جیسے معا ملات میں ٹرائیل اور اپیلوں کے لئے دو سے چار مہینے کا ٹائم فریم دے دیں کیونکہ ان کا با قاعدہ ریکارڈ ہوتا ہے جو اگر دوسری پیشی میں عدالت کے سامنے نہ رکھی جائے تو قیا مت تک دستیاب نہیں ہو گا اس ریکارڈ کا انتظار وقت کا ضیاع ہے چو تھا کام یہ ہے کہ فریق یا وکیل کی غیر حا ضری کے لئے صرف ایک مو قع کی گنجا ئش رکھی جا ئے، دوسری بار غیر حا ضری کی صورت میں یکطرفہ فیصلہ سنا یا جائے تاکہ کمزور فریق باربار التوا کا فائدہ نہ اُٹھا سکے سابق گورنر لفٹنٹ جنرل فضل حق شہید کے دور کا ایک وا قعہ مشہور ہے وہ چترال کے دورے پر گئے ڈسٹرکٹ کونسل کے اقلیتی ممبر بشارا خان کا لاش نے دو مطا لبے کئے دو نوں کو ماننے کے بعد فضل حق نے پو چھا اور کوئی خد مت؟ بشا را خان نے کہا ”مجھے جج لگاؤ“ فضل حق نے پو چھا کتنی تعلیم ہے تمہاری؟ بشارا خان سوکھا ان پڑھ ہوں فضل حق نے پھر پو چھا پھر کیسے فیصلے کرو گے؟ بشارا خان نے کہا تمہارے جج کی طرح میں بھی کر سی پر بیٹھوں گا اور تاریخ دیدونگا پھر تاریخ،پھر تاریخ،پھر تاریخ“ فضل حق جیسا جا بر شخص بھی اس جواب پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ہماری عدا لتی تاریخ کا سب سے عجیب المیہ ”تاریخ“ ہے اور مقدمات کے التواء کا سبب بھی یہی ہے چیف جسٹس اگرچاہیں تو یہ 4کام کریں 5سال بعد ملکی عدالتوں میں کوئی زیر التوا ء مقدمہ نہیں بچے گا اس حوا لے سے بر طا نیہ کے سا بق وزیر اعظم چر چل کا مقو لہ یقینا چیف جسٹس کے علم میں ہو گا 7ستمبر 1940کو جرمن طیا روں نے لندن پر پہلی بمباری کی تو چر چل نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”اگر ہماری عدا لتوں میں انصاف ہورہا ہو تو دشمن ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔