دروش میں فٹ بال میچ کے دوران رونما ہونے والے بدنما واقعے کا ذمہ دارکون؟

۔۔۔۔۔۔۔تحریر:حسین احمد، سیکرٹریڈی۔ایف۔اے چترال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب پہلے میں اس واقعے کی مذمت کر تا ہوں چاہے اس کی ذمہ دار جو بھی ہیں سب مجرم ہیں۔ جس مقصد کے لیے ۱۹۹۲ میں ایسوی ایشن کا قیام عمل ایا تھا اس عمل کو چند دہشت گرد کھلاڑیوں نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ خیر وشر ازل سے برسرپیکار ہیں اور رہیں گے لیکن شر ہمیشہ مٹنے کے لیے ہے۔ ۱۹۷۷ کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جو پولو گراونڈ میں  پیش ایا تھا۔ میں اس کے تفصیل میں جانا نہیں چاہتا ۔جناب کمانڈینٹ صاحب، ڈپٹی کمشنر اورجناب  ڈی۔پی۔او صاحب اس سلسلے میں سابقہ ریکارڈ ملاحظ کر سکتے ہیں۔

پہلا ذمہ دار سابق ضلعی حکومت اور تحصیل حکومت:

 جب ضلعی حکومت اور تحصیل حکومت تشکیل پایین۔تو ہم نے اپنے تہنیتی پیغام میں ان سے درخواست کی کہ چترال میں بے لگام سپورٹس ٹورنمنٹ کے انعقاد کو لگام دینے کے لییے سب سے پہلی ضلع کونسل میں قانون سازی کیا جاییے اور ہم نے ہر قسم کے تعاون کرنے کا اعادہ کیا۔ ہمارے درخواست پر غور نہ ہونے پر اسوقت کے سپورٹس کمیٹی کے چیرمین جناب ریاض احمد صاحب کے معیت میں جناب سپیکر  مولانا عبدالشکور سے بار بار ملاقتیں کیں اور سپورٹس پالیسی بنانے اور منظور کرنے کی التجا کی۔ ۵ سال تک چیختے رہے لیکن ہماری اواز صدا  باصحرا ثابت ہویی۔ بلک ہمارے درخواست کے برعکس پراییوٹ، تجارتی اور سیاسی  ٹورنمنٹوں کو فروغ دیتے رہے جس کا ثبوت یہ ہےکہ صرف ۲۰۱۸کے سپورٹس اخراجات ایک کروڑ چھبیس لاکھ ضلع اسمبلی میں منظوری  کے پیش کیے گیے۔اس بڑےرقم میں  سے ایک روپیہ  بھی کسی ایسو ی ایشن کو نہیں  دیے گیے اور نہ اسی دوران کوئی ٹورنمنٹ ضلعی حکومت کی طرف سے منعقد کرایا گیا۔ اس رقم سے چترال کے اندر  ایک گراونڈ بن سکتا تھا نجی ٹورنمنٹوں میں استعمال  ہوے سیاسی مقاصد کے لیےء۔ضلع حکومت  نے اپنے  دورانیے کے دوران مسلسل ضلعی فٹ بال ایسوی ایشن کو  پس وپشت ڈال کر سیاسی کارکنان جو سپورٹس  اور ایونٹ مینجمنٹ سے نابلد تھے سپورٹس کوبرباد کیے۔ اس کا ثبوت یہ  ہے کہ اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود سرکاری سطح پر فٹ بال کا  کویی ٹورنمنٹ  ۲۰۱۶ سے لیکر ۲۰۱۹ تک منعقد  نہیں ہوے۔

سپورٹس پالیس جو ضلعی حکومت کا  فرض  تھا  مرتب نہ کر کے  غیر متعلقہ افراد سے ٹورنمنٹ  کرانے کی اجازت اور مالی معاونت کرکے سپورٹس کو اس حال تک پہنچایا ۔ لہذا سابق ضلعی حکومت  اس بد نما واقعہ  کا ذمہ دار ہے۔ اگر ضلعی  حکومت سپورٹ بالیسی  اسمبلی سے منظور ہوتا  نہ یہ ٹورنمنٹ  ہوتا  اور  نہ یہ بدنما واقعہ وقوع پذیر ہوتا۔

دوسرا ذمہ دار ڈسٹرکٹ سپورٹس افیسر؛

میں نے مرحوم اسامہ ڈپٹی کمشنر کو لیٹر کیا اور درخواست کیا کہ پراییوٹ اور تجارتی بنیادوں پر ٹورنمنٹوں پر پابندی لگایا جاییے تاکہ نواجونوں کے وقت کا ضیاع نہ ہو۔ ڈپٹی کمشنر نے ڈی۔ایس۔او عبدالرحمت کو لیٹر مارک کیا اور کہا کہ ان ٹورنمنٹوں پر پابندی عاید کیا جایے۔ لیکن افسوس ڈی۔ایس۔او نے اس کو کویی اہمیت نہیں دیا۔ دوبارہ جناب سدھیر صاحب ڈپٹی کمشنر صاحب کو درخواست دیا کہ پراییوٹ ٹورنمنٹوں پر پابندی عاید کیا جاءے۔ اس نے دوبارہ ڈی۔ایس۔او کو ہدایت کی کہ پراییوٹ ٹاورنمنٹوں کو بند کرنے کے لیے اقدامات کیے جاییں۔ لیکن افسوس ڈی۔ایس۔او نے ان ہدایات پر عمل نہیں کیا۔  لہذا ہر کس و ناکس ضلع کے اندر جہاں چار گرز جگہ ملی ٹورنمنٹ منعقد کر تے رہے جن کا نہ کویی اصول اور نہ کویی قانون تھا بس ایک ہی مقصد تھا کہ پیسہ کمایا جاءے۔ لہذا ڈی۔ایس۔او ذمہ دار ہے اس بدنما واقعہ کا۔ کیونکہ  اگر اسوقت  ڈی۔ایس۔او ڈپٹی کمشنر صاحب کے احکامات پر عملدر امد کرتے ہوے پراییوٹ ٹورنمنٹ  پر پابندی  حکم نامہ جاری کرتا  تو  اج یہ واقعہ  رونما نہ ہوتا۔ کیونکہ  فٹ بال اسی ایسوی اشین  کے زیرنگرانی سال میں صرف دو ہی  ٹورنمنٹ ہوتے  ہیں جبکہ باقی سارے تجارتی  اور پراییوٹ  ٹورنمنٹ  ہوتے ہیں جو سپورٹس  پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سال بھر جاری رہتے  ہیں۔

تیسرا ذمہ دار ٹورنمنٹ انتظامیہ

دروش میں ضلع فٹ بال ایسوی ایشن کا ایک ہی رجسٹرڈ کلب ہے جو سالانہ خوبصورت انداز میں ٹورنمنٹ کراتا ہے اور تمامشراکت داروں کے اشتراک سے ٹورنمنٹ کراتا ہے اس کلب کا نام آییڈیل فٹ بال کلب دروش ہے جس کے سربراہ  جناب جمیل صاحب جو بہترین تعلیم  یافتہ  سپورٹس بیک گراونڈ کے حامل فرد ہونے  کی وجہ  سے سالانہ  ڈی۔ایف۔اے  اشتراک  سے ٹورنمنٹ کراتا ہے اور کمیاب ایونٹ می میں شمار ہوتا  ہے۔ ڈی۔ایف۔اے  اس ایونٹ کو  اپنا سمجھتا ہے اور اپنے بساط کے مطابق تعاون  بھی کرتا ہے ان کے نگرانی میں ہونے  والے ٹورنمنٹ میں  تما م شرکت دار  شامل ہو تے  ہیں  جن میں  سرکاری ، نجی ادارے اور عوام شامل  ہیں  جو  کسی بھی  ایونٹ کے لیے ضروری  ہے۔  بروقت  منصوبہ بندی کر تا ہے۔ اس کے برعکس موجودہ  ٹورنمنٹ کے انتظامیہ  نہ بروقت منصوبہ بندی کی، نہ ضلعی حکومت اور انٹطامیہ اور ایسوی ایشن سے منظوری اور اجازات لینا گورارہ کیا ۔ نہ ٹورنمنٹ کے دوران  سیکورٹی  کا  بندوبست کیا ۔ لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹورنمنٹ  منعقد کرنے سے پہلے متعلقہ اداروں سے اجازت کیوں نہیں لیا گیا ؟ سیکورٹی کا انتظام کو کیوں پس وپشت ڈالا گیا ؟  متنازعہ کھیل دوبارہ  کرانے کے  لیے  اگر سیکورٹی دستیاب نہیں تھا  تو  دو نوں ٹیموں کو ٹورنمنٹ  سے خارج کیوں نہیں کیا؟ اگر میچ دوبارہ کرانا ناگزیر تھا تو سیکورٹی اور حفاظتی  اقدمات  کیوں نہیں  کیے گیے؟۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یا تو انتظامیہہ چٹ  نااہل تھے یا  دیدہ و دانست فساد برپا کرنا مقصود تھا۔ لہذا  اس بد نما واقعہ  کا اصل  ذمہ دار اور مجرم ٹورنمنٹ انتظامیہ کے افراد ہے اور ان کے خلاف قانونی  اور فوجداری  مقدمہ دایر ہونا چاہیے۔

چوتھا  ذمہ دار ٹیم کوچز اور مینجر:

ژانگ بازار اور ڈنگریکاندہ کے مینجرز اور کوچز اس چیز کے ذمہ دار ہیں کہ وہ کھلاڑیوں اور اپنے تماشیوں کو کنٹرول کرتے اگر وہ یہ  نہیں کر سکتے ہیں  تو اس کا مطلب  ہے کہ وہ خود ساختہ مینجرز اور کوچز ہیں جن کو گاوں کی حمات حاصل  نہیں  اور نہ  ان کی اہلیت ہے اور نہ ان کی  وقعت ۔ لہذا  ایسوی  ایشن  ان کو بھی  اس واقعہ کا ذمہ  دار سمجھتا  ہے اور ا یندہ ان پر پابندی  عاید کرتا ہے۔

پانچوان  ذمہ دار سپورٹس دہشت گرد

دنیا بھر میں سپورٹس دہشت گرد ہوتے ہیں   اور ان پر قابو پانے کےب لیے  مہذب دنیا  کے اندر قانون  سازی ہوا ہے ۔تاکہ  کھیل  کے دوران  امن وامان برقرار  رکھا جاسکے۔ کھیل میں امن کو یقینی اسوقت بنایا جاسکتا ہے جب تمام ایونٹ ضلع ایسوی ایشن کے اجازت سے منعقد کیے جایین۔ کیونکہ ایسوی ایشن کو معلوم ہے کہ کونسی ٹیم جارحانہ انداز رکھتا ہے اور کونسے کھلاڑی دہشت گردی کا  مظاہرہ کر سکتا  ہے  ان کے لیے  بروقت منصوبہ بندی  کیا جاسکتا ہے۔ جو کھلاڑی اس بدنما واقعے کے محرک ہیں ان پر ۲۰۱۷ ڈی۔ایف۔اے  کی طرف سے پابندی  عاید تھا۔ یہ پابندی  انٹر  وی۔سی۔سی۔ میں  ہنگامہ اراءی  کرنے پر  عاید کیا گیا تھا۔ اور یہ کھلاڑی  عدالت میں بھی گیے تھے۔ اگر ٹورنمنٹ  ایسیو ایشن کے اجازت  سے ہو تا  ہے تو یہ بدنما واقعہ رونما نہ ہوتا۔ چونکہ یہ کھلاڑی  ہر ایونٹ میں جارحانہ  کھیل  اور رویے کا مظاہرہ کر تے ہیں  لہذا اس واقعے کے ذمہ دار یہ  کھلاڑی ہیں۔ ان پر تاحیات پابندی  عاید کیا جاییے تاکہ ایندہ کے لیے اس قسم کے بد نما واقعات رونما نہ ہوں۔

مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی تدارک کے لیے تجاویز

جناب کمانڈنٹ صاحب چترال سکاوٹس، جناب ڈپٹی کمشنر صاحب چترال اور جناب ڈی۔پی۔ او صاحب سے ان تجاویز پر عملدر کو یقینی بنانے کے لءے اپیل ہے

۱۔ گراونڈ میں کھلے دہشت گردی کے  مرتکب افراد کے خلاف سخت سے سخت یعنی دہشت گرادی قوانین کے تحت کارراویی عمل میں لایا جایے۔ کیونکہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں اگر اس بار ان سے نرمی کا رویہ اختیار کیا گیا تو دہشت گردی کا یہ زہر نوجوانوں کے خون میں سریت کرجایے گا۔ لہذا ان کھلاڑیوں سے اہنی ہاتھوں سے نمٹا جایے۔ ایسوی ایشن ان پر تاحیات پابندی پہلے ہی عاید کرچکا ہے۔

۲۔ تما م نجی اور منافع  بخش اور تجارتی ٹورنمنٹوں پر فی الفور پابندی عاید کیا جاءے۔ تمام ایسوی ایشنوں سے سالانہ ایونٹ کیلنڈر لیا جایے اور اسی کے مطابق ایونٹ منعقد کرنےکی منظوری دیاجایے

۳۔  ۔  تمام ایونٹ متعلقہ ایسوی ایشن کے وسطت سے اور اجازت سے منعقد کیے جاییں۔ افراد کے بچایے   ایسوی ایشنل سرگرمیوں کو فروغ دیا جاییے۔

۴۔ سپورٹس فنڈ کا سیاسی رشوت کے طور پر  استعمالبند کرنے کے لیے اقدامات کیے جایین۔

۴۔ چترال میں بلاتاخیر ایک ہمہ وقتی ڈی۔ایس۔او کا تقرر عمل میں لایا جانے کے لیے صوبایی حکومت کو مجبور کیا جایے۔ جب تک ڈی۔ایس۔ او کا تقرر نہیں ہوتا کسی دوسرے ضلع کے تجر بہ کار ڈی۔ایس۔او کو ایڈیشنل چارج دیا جاییے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔