داد بیداد….آئی ایم ایف کا مشن

اس ما ہ کی 17 تاریخ سے 20 تاریخ تک آئی ایم ایف کا مشن پاکستانی حکام کے ساتھ اُن شرائط کے پورے ہو نے پر مذاکرات کر یگا جو شرائط پاکستان کو 6 ارب ڈالر کی پہلی قسط ادا کر نے کے لئے رکھی گئی تھیں ان شرائط میں نما یا ں شرط یہ تھی کہ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے پید اوار، جائیداد، آمدن اور خد مات پر مزید ٹیکس لگا ئے جا ئیں ان شرائط کے مطابق 4153 ارب کے ٹیکس لگا نے تھے پہلی سہ ما ہی کے دوران ٹیکس وصولی کا ہد ف 1795 ارب روپے مقر ر ہوا تھا مختلف شعبوں کے لئے ٹیکسوں کے الگ الگ اہد اف مقر ر ہو ئے تھے توانائی کے ذرائع کو مہنگا کر نے کے لئے بھی اہد اف دئیے گئے تھے یہ کوئی نئی بات نہیں یہ قرض دینے والے ا داروں اور بینکوں کا پرانا دستور ہے وہ قر ض دیتے ہو ئے کڑی شرائط بھی رکھتے ہیں وہ قرض لینے والوں کو بتا تے ہیں کہ بجلی کی قیمت فی یونٹ کتنی ہو نی چا ہیے؟ گیس کا کیا نرخ ہو نا چاہیے؟ تیل کس قیمت پر لوگوں کو ملنا چاہیے؟ جائید اد پر کتنا ٹیکس لگنا چاہیے؟ پیداوار پر کتنا ٹیکس لگا یا جا ئے؟ اور تنخوا ہوں یا خد مات پر کتنا ٹیکس لگے گا؟ جب تک قرض لینے والا ملک قرض دینے والے کو مطمئن نہ کر ے تب تک قرض کی اگلی قسط نہیں ملتی کیو نکہ قرض دینے والا اپنے سر ما یے کو محفو ظ بنا نے کے ساتھ ساتھ سو د کی بر وقت وصولی کو بھی یقینی بنا نا چاہتا ہے ہمارے سیاستدان کبھی کہتے ہیں ہم ڈیل پر یقین نہیں رکھتے، کبھی کہتے ہیں ہم کسی سے ڈکٹیشن نہیں لینگے، کبھی کہتے ہیں قرض لتے ہو ئے ہمیں شرم آئے گی؟ کبھی کہتے ہیں آئی ایم ایف کی کیا مجال کہ وہ ہمیں بجلی، گیس اور تیل کے نر خ مقر ر کر کے دید ے یا عوام پر مزید ٹیکس لگا نے کا حکم دے دے مگر یہ باتیں وقت آنے پر کھو کھلی ثابت ہوتی ہیں جنرل ضیا ء الحق سے پہلے پاکستان قرضوں میں جکڑا ہوا ملک نہیں تھا 1980 ء اور 1998 ء کے درمیان 18 سالوں میں پاکستان پر یہ حال آیا کہ بار بار مالیا تی کنسور شیم اور پیر س کلب کی منتیں کر کے قرضوں کو ری شیڈ ول کر انا پڑا ری شیڈ ول کا طریقہ ڈاکٹر محبو ب الحق نے دریافت کیا تھا جنرل مشرف نے 1999 ء میں اقتد ار سنبھا لنے کے بعد کوئی لمبے چو ڑے دعوے اور اعلا نات نہیں کئے پہلے سال اس نے بھی پیر س کلب کے ذریعے قرضوں کو ری شیڈول کر واکر پاکستان کو دیو الیہ ہو نے سے بچا یا اس کے بعد ان کے وزیر خزانہ اور بعد ازان وزیر اعظم شوکت عزیز نے ایسی پالیسی تشکیل دی کہ 7 سا لوں کے اندر پاکستان کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حاجت نہیں رہی پاکستان نے با قا عد ہ طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کو خیر باد کہہ دیا اگر لی کوان یو اور ڈاکٹر مہا تیر محمد کی طرح جنر ل مشرف کو 21 یا 22 سال مل جاتے تو پاکستان بھی ملا ئشیا ء، سنگار پور اور ترکی جیسا خود مختار اور خود کفیل ملک بن سکتا تھا پاکستان کو اگر خو د کفالت کی منزل تک پہنچا نا اور خود مختار ملک بنا نا ہے تو ہمیں جنر ل مشرف جیسا لیڈر لا نا ہوگا جسے ٹیم بنا نے، اچھے لوگوں کو ٹیم کا حصہ بنا نے اور ٹیم سے کام لینے کا گر آتا ہوجس کو معاشی مسائل کی سمجھ بو جھ ہو اور جو انگر یزی اصطلا ح کی رو سے ٹاسک اورئٹیڈ (Task Oriented) یعنی ذمہ داری نبھا نے والا ہو 17 ستمبر سے 20 ستمبر پر آئی ایم ایف کے مشن کو پاکستان کے اقدامات اور معاشی مشکلا ت پر تفصیلی بریفینگ دے کر مہلت مانگی جا ئیگی نیز بعض شرائط کو نرم کر نے یا بعض صورتوں میں پاکستان کو استثنیٰ دینے کی درخواست کی جائیگی اس درخواست کو ما ننا یا نہ ما ننا آئی ایم ایف کی صو ابد ید پر منحصر ہے گو یا پاکستان ابھی معا شی بھنو ر سے نکلنے کے قریب نہیں پہنچا وطن عزیز کی مثال قوموں کی برادری میں ایسی ہے جیسی بھٹہ خشت میں جبر ی بیگار کر نے والے مز دوروں کی اگرچہ خیبر پختو نخوا ہ میں صورت حال بہتر ہو ئی ہے تاہم پنجا ب، سند ھ اور بلوچستان میں اینٹو ں کی بھٹیو ں پر پورے، پو رے کنبو ں اور خاندانوں سے بیگار لیا جاتا ہے شادی، غمی اور بیما ری میں بھٹہ خشت مالکان مز دوروں کو سود پر قرض دیتے ہیں اس قرض کاسود کبھی ختم نہیں ہوتا ور جبری بیگار جاری رہتا ہے کوئی کنبہ یا خاندان اس عذاب سے نکلنا چاہے تو کہا جاتا ہے قرضہ واپس کرو سو د ادا کرو اور جہاں مرضی چلے جا ؤ پاکستا ن بھی آئی ایم ایف کے تھا ن پر اسی طرح بند ھا ہوا ہے بقول مرزا غا لب ؎
بھا گے تھے بہت، سو اس کی سز ا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں رہزن کے پاؤں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔