چترالی ٹوپی

…….. اقبال حیات آف بر غذی ……….

حالیہ دنوں میں چترالی ٹوپی کو جلا نے کی دل دُکھانے والی خبر جب سوشل میڈیا کے ذریعے سنے میں آئی تو بے ساختہ دُکھ اور درربھرے انداز میں ” انا اللہ وانا الیہ راجعون “کے الفاظ زبان پر آئے۔ حقیقتاً یہ واقعہ اپنی نو عیت کے اعتبار سے معاشرتی المئے کے مترادف ہے۔
حیرت کا مقام ہے کہ محبت کے وصسف کا آغاز انسان کے اپنے وجود سے ہو تا ہے۔ چاہے اس کا رنگ و روپ جس طرز اور ڈھنگ کا بھی ہو خود کو سنوارنے کا شوق ذہن پر سوارہو نا فطری عمل ہے۔ اس شوق کی بر آوری میں سب سے پہلی ترجیح لباس کو دی جاتی ہے لباس گھر کے افراد اور معاشرے کے تقاضوں کا عکاس ہو تا ہے اور لباس ہی سے انسا ن کی طرز زندگی اور علاقائی وابستگی نما یاں ہو تی ہے۔ جس طرح ماں کی گو د میں پر وان چڑھنے کے دوران اولاد کی زبان پر آنے والی بولی مادری زبان کے نام سے قابل احترام ہو تی ہے اسی طرح اس لباس کی قدرو قیمت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے جو اس گود میں ہی ماں کے ہاتھوں ذیب تن کیا جا تا ہے۔ بد قسمتی سے فی الوقت ہم اجتماعی طور پر مختلف تہذیبوں کی یلغار کی زد میں آکر مادر و پدر آزاد
طرز زندگی کی طر ف راغب ہو تے جا رہے ہیں۔ یوں معاشرے کی سب سے منفردد نشانی بر قے کو دختران پاک طینت سروں سے اُتار کر آزاد فضا میں سانس لینے میں سر گرم عمل ہیں تو دوسری طرف ہمارے فرزندران ارجمند چترالی ٹوپی سے
کر اہٹ کا اظہار کر تے ہوئے اپنے قریب نہ لا نے یہاں تک کہ اسے جلا نے کے قبیح فعل کے ارتکاب کا شکار ہو تے ہیں اور ساتھ ساتھ کھوار بولی پر بھی طنز کے نشتر چلا نے والے بھی معاشرے میں پا ئے جا تے ہیں۔
یوں ہماری منفرد معاشرتی تشخص کے خلاف آئے دن اُٹھنے والے یہ اقدامات اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہماری تہذیبی دنیا کے بگڑ جا نے کی علا مات کے رنگ اختیار کر تے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے لوگ اس طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو ہماری روایتی لباس اور معاشرتی طرز زندگی کو جدید دور کے تقاضوں اور دنیاوی ترقی کی راہ میں مانع تصور کر تے ہیں حالانکہ بقول اقبال

”کوئی اندازہ کر سکتا ہے ا سکے ذور بازو کا“
”نگاہ مرد مومن سے بدل جا تی ہیں تقدیریں“

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔