اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر: ’اگر جنگ ہو گی تو ایٹمی ہو گی یہ دھمکی نہیں وارننگ ہے‘

چترال ایکسپریس) وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ ایک اعشاریہ دو ارب کی آبادی والی مارکیٹ کو خوش کرنے کی بجائے انڈیا کو کشمیر کی پالیسی بدلنے پر مجبور کرے۔

وازیراعظم عمران خان نے اپنی تقریباً ایک گھنٹے کی تقریر میں کہا کہ کشمیر کی صورتحال دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ شروع کروا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو پاکستان آخری حد تک جائے گا۔

انھوں نے کہا ’یہ دھمکی نہیں ہے بلکہ وارننگ ہے۔`

 وزیر اعظم پاکستان عمران  نے مزید کہا کہ ‘کشمیر'(انڈیا کے زیر انتظام کشمیر) میں اسی لاکھ افراد کرفیو میں ہیں اور جب یہ کرفیو اٹھے گا تو وہاں خون کی ندیاں بہیں گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کسی نے سوچا ہے جب خون کی ندیاں بہتی ہیں تو کیا ہوتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 13 ہزار نوجوانوں کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا ہے اور کسی نے کبھی ان نوجوانوں کے نقطۂ نظر سے سوچا ہے کہ وہ اس وقت کس کیفیت سے گزر رہے ہوں گے جب انہیں مختلف طرح کی خبریں مل رہی ہوں گی۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ ان میں سے کچھ انتہا پسندی کی طرف جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ایک اور ‘پلوامہ’ ہو گا، اس کا الزام پاکستان پر لگے گا، ‘اسلامی دہشت گردی ‘ کی اصطلاح استعمال ہو گی جسے سن کر دنیا چپ ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹوں کے مطابق کے کشمیر میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں ریپ ہو چکے ہیں۔

 وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ کیا کسی نے سوچا ہے کہ انڈیا کے 18 کروڑ مسلمان اس وقت کیا سوچ رہے ہیں، دنیا بھر کے مسلمان کیا سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا وہ کسی ‘کم تر خدا کے بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے لوگوں کا دل دکھے گا اور پھر کوئی بندوق اٹھا لے گا۔

 وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ اقوام متحدہ نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا اور اب ان وعدوں کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ انہوں نے تقریر کے اختتام پر کہا کہ پہلا اور فوری ایکشن تو یہی ہونا چاہیے کہ انڈیا کشمیر میں کرفیو ختم کرے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تقریر میں مختلف موضوعات پر بات کرنے کے بعد آخر میں کشمیر کا ذکر کیا اور سب سے زیادہ وقت اسی پر بات کی۔

 وزیرِ اعظم  عمران خان نے کہا کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 80 لاکھ کشمیریوں کو کرفیو میں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ ’اگر مغرب میں 80 لاکھ جانور قید کر دیے جائیں تو جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں متحرک ہو جائیں گی۔‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے، اس کے لیے آر ایس ایس کا نظریہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا نریندر مودی اس تنظیم کے تاحیات رکن ہیں اور یہ تنظیم نسلی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور انڈیا میں نسل کشی کرنا چاہتی ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہے۔

’آر ایس ایس کا نظریہ نفرت کا نظریہ ہے اور اسی کی وجہ سے گاندھی کا قتل ہوا تھا۔ اسی نظریے کی وجہ سے انڈیا کی ریاست گجرات میں دو ہزار لوگوں کا قتل عام ہوا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ جب کوئی بالادستی کے کی سوچ اپناتا ہے تو غرور اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے اور اسی چیز نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے کشمیر والا فیصلہ کروایا۔

وزیر اعظم عمران نے کشمیر پر بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ اقتدار میں آئے تھے تو ان کا ایجنڈا امن تھا اور اپنے پڑوسیوں ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنا شروع کیے اور اسی جذبے سے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف بھی ہاتھ بڑھایا۔

اُنہوں نے کہا انڈیا کی طرف سے مثبت جواب نہیں ملا اور انہوں نے ہم پر الزام لگائے اور میں نے جواب میں انھیں بلوچستان میں انڈیا کی کارروائیوں کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے کہا انڈیا کو کہا گیا کہ یہ سب بھول کر آگے بڑھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس کی وجہ ان کے بقول، شاید انتخابات کا ماحول تھا لیکن انتخابات کے دوران اور بعد میں بھی پاکستان مخالف جذبات کا اظہار ہوتا رہا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے ایک سے زیادہ بار اپنی تقریر میں کہا کہ خطرہ یہ ہے کہ کوئی شخص حالات سے متاثر ہو کر انتہا پسندی کی طرف جا کر کوئی کارروائی کر دے گا جس کا الزام پاکستان پر لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب ایٹمی طاقتوں کے آمنے سامنے آنے کا امکان ہو تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مداخلت کرے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور 70 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔ انہوں نے کہا ان کی حکومت نے تمام ایسے گروپس کو ختم کیا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔