دھڑکنوں کی زبان.. نقار خانے میں شیر کی للکار

جگہ نیو یارک۔۔مقام جنرل اسمبلی ہال۔۔اجتماع دنیا کے اقوام کا۔۔مقرر وزیر اعظم پاکستان۔۔بات معمول کی ہے۔۔۵۴۹۱ء سے آج تک ایسا ہوتا آیا ہے۔دوسری جنگ عظیم کو ختم کرنے کے لئے اقوام عالم مل بیٹھے۔ کہا۔ ایک تنظیم بنائیں گے دنیا کے سارے جھگڑے فساد یہ تنظیم ختم کرے گی۔۔فیصلہ کرے گی۔۔ ہر ایک کو انصاف ملے گا۔تنظیم کی عمر ۴۷ سال ہے مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ ہر ایک کو انصاف نہیں ملا۔غریب،مجبور اور کمزور پستے گئے۔زیر دست کی ایک نہ چلی زبردست ان کوکچلتے رہے۔۔طفیلی طفیلی ہی رہے۔مفادات مفادات ہی رہیں۔سرد جنگ،منافقت،دھوکہ دہی،لالچ اور بیخ کنی اور زیادہ ہوئیں۔ملک ٹوٹتے بکھرتے رہے۔۔جغرافیہ تبدیل ہوتے رہے۔لیکن یہ تنظیم کسی درد کی دوا نہ بنی۔جنگیں لڑی جاتی رہیں۔ہتھیار بنتے رہے۔امن خواب ہوتا رہا۔۷۴۹۱ ء میں برصغیر کی تقسیم کے وقت فسادات میں یہ تنظیم کہاں تھی۔اس ریاستوں میں حق خود ارادیت کی آواز اُٹھ رہی تھی یہ تنظیم کہاں تھی۔بھارت اور پاکستان کے درمیان چار دفعہ جنگیں ہوئیں اس تنظیم کا کیاکردار رہا۔۹۶۹۱ء کے عرب اسرائیل جنگ میں اس نے کیاتیر مارا۔عرب ممالک مغرب سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے یہ تنظیم کیاکررہی تھی۔ویتنام،بوزنیا،چیچنیا میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی اس تنظیم نے کیا۔افغانستان کوتاراج کیاگیا تنظیم کہاں تھی۔ ایران اور عراق کو لڑایا گیا پھر عراق میں آگ لگائی گئی۔اس تنظیم کی۴۷ سالہ شرمناک تاریخ ہے اگر کچھ کام کیا بھی ہے تو ان مگر مچھوں کے لئے کیا ہے جو پہلے بھی زبردست تھے۔۔پھر تنظیم کی کیاضرورت تھی یہ ایک دوسرے کو غراتے رہتے ایک دوسرے کی مفادات پہ ڈاکہ ڈالتے رہتے۔۔طفیلی طفیلی ہی رہتے۔۔اس کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں۔ہر سال وہاں پرچھوٹوں بڑوں کی حاضری ہوتی ہے۔۔ چھوٹوں کی دھائیاں ہوتی ہیں۔۔بڑوں کی اداکاریاں ہوتی ہیں۔دلائل دئے جاتے ہیں۔چھوٹے سمجھتے ہیں کہ ان کی دلائل سے بڑے مگر مچھ پگھل گئے مگر یہ سب صدا بہ صحرا ہوتی ہیں۔اداکاریاں اسی طرح چلتی رہتی ہیں۔۔مذید تباہ کاریاں ہوتی ہیں۔منصوبہ بندیاں ہوتی ہیں۔چھوٹوں کوکچلنے کے پروگرامات ہوتے ہیں۔یہ ہوتا رہا ہے کیونکہ جرم ضعیفی کا عوض مرگ مفاجات ہے۔۔اگر یہ سب چھوٹے دھائی دینے کی بجائے اپنے پاؤں پرکھڑے ہونے کی تدبیریں کریں۔ان کے سہانے خوابوں کے رنگیں تعبیروں میں مست نہ ہو جائیں تو ان کا کیا بگڑے گا۔ہمارا حال بھی یوں رہا ہے۔ہم نے بھی بڑے جوش دیکھاتے رہے ہیں۔تقریریں کرتے رہے ہیں۔یہ سمجھتے رہے ہیں۔کہ ہماری تقریروں نے بڑا اثر دیکھایا مگر یہ ہمارے خواب ہی رہے ہیں۔لیکن ہم سمجھتے بھی ہیں ہم نے سرنڈر نہیں کیا۔ہمارے دشمن کو بھی احساس ہے۔کہ ہم کم اہم نہیں ہیں۔۔ہمارے وزیراعظم کی حالیہ تقریر گویا کہ پوری قوم کے دل کی آواز تھی اس لئے دشمن ڈنکے کی چوٹ پر کشمیر کو یرغمار کرنا چاہتا ہے۔۔کشمیر اگر بھارت کااٹوٹ انگ ہوتا تو ہم بھی اتنے منہ پھٹ نہیں ہیں کہ دخل درمعقولات کرتے۔اتنے بڑے بھارت میں سینکڑوں مسلم ریاستیں ہیں ہم ان کے بارے میں کیوں بات نہیں کرتے۔کشمیر کی حیثیت دنیا پر واضح ہے۔لیکن دنیا خاموش ہے۔بڑے خاموش ہیں۔اسی لاکھ ہمارے بے قصور بھائی بہنیں بچے بچیاں کچلے جا رہے ہیں۔دنیا ان پرتنگ ہے لیکن کسی کو کوئی احساس نہیں۔اب کی بار قوم سیخ پا تھی کہ دنیا کو کم از کم للکارا جائے۔مکار اور بزدل دشمن کوبھی للکارا جائے۔وزیراعظم نے للکارا۔۔یہ للکار قوم کے دل کی آواز بن گئی ہے۔۔کم از کم جذبات کی حد تک تو دنیا سمجھ گئی کہ ان کی رگوں میں خون ٹھنڈا نہیں ہوا۔یہ بانکا قوم اگر کڑا وقت آئے تو دیوانی ہو جاتی ہے۔وزیر اعظم نے سچ کہا کہ اگر چند گائے یرغمال ہو جائیں تو دنیا کے اقوام کی دوڑ لگ جائے گی اگر چند یہودی مصیبت میں ہوں تو شور اُٹھے گا۔اگر تامل ٹایئگر دہشت پھیلائیں تو دشت گرد نہیں کہلائے جائیں گے اگر ہم دوسروں کی جنگ لڑئیں تو مجاہد کہلائیں گے اگر ان کی مفادات ختم ہوں تو ہم دشت گرد بن جائیں گے۔پھر اسلام کا تعارف پیش کیا گیا۔بعض اہل الرائے کا خیال ہے کہ تقریر سے کچھ نہیں ہوتا۔شاید ہم راتوں رات کشمیرفتح کریں اور بھارت کو تہس نہس کر دیں۔یہ عجیب سوچ ہے۔ہم کم از کم اپنے جذبات تو دنیاتک پہنچا دیں دنیا کوہماری تڑپ اور احساسات کاپتہ ہو۔آگے ہماری کوششیں ہونگی۔ہم سفارت کاری کریں گے۔ہم آواز میں آواز ملائیں گے۔ہم اخلاقی حمایت کریں گے۔اور ہماری کسی قربانی کا وقت آجائے تو دنیادیکھے گی۔ہم نہ جنگ چاہتے ہیں نہ اٹم بم کا بتاتے ہیں لیکن دوسرے کہہ دیں کہ جوہری ہتھیار ہماری مرضی کے تابع ہونگے تو دنیا خاموش ہوگی اگر ہم کہیں کہ ہم اٹمی طاقت ہیں تو یہ دھمکی ہوگی۔ہم مداری کی سب چالیں سمجھتے ہیں ہم نے بہت قربانی دی ہے۔وزیراعظم کی للکار قوم کی للکار ہے۔اگر ہم ریت کی دیوار ہیں تب بھی یہ للکار ٹھیک وقت پر ہے ان شا اللہ ہم ریت کی دیوار نہیں ہیں۔نہ وزیر اعظم ہم سے مایوس ہے نہ ہم وزیراعظم سے مایوس ہیں۔ہم فخر کرتے ہیں۔چلواگر سلامتی کونسل نقار خانہ بھی ہے تو ہماری آواز شاہین کی آواز ثابت ہو گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔