جس کھیت سے دھقان کو میسر نہیں روزی۔۔۔۔۔  مگرمچھ  اور چیونٹی

آج کل سارا ملک  رسہ کشی کی لپیٹ میں ہے،ہڑتالیں ہیں، جلوس ہیں، جلسے ہیں، دھمکیاں دی جارہی ہیں مالدار حکومت کو دھمکیاں دے رہے ہیں سیاستدان حکومت کو گرانے کے لئے سر تو ڑکوشش کر رہے ہیں جو ہار چکا ہے وہ اپنی ہار ماننے کے لئے تیار نہیں جو جیت گیا ہے وہ اپنی جیت میں رواداری کے لئے تیار نہیں، یہ ہمارے مالدار، سرمایہ دار، جاگیر دار، مذھب کے ٹھیکیداروغیرہ وغیرہ دار طبقے کی سوچ ہے اور غریب کا کوئی سوچ نہیں اور اگر کہیں ہے بھی  تو وہ  دو وقت کی روٹی کا سوچ ہے، مزدور کو اجرت پر کام نہیں مل رہا  کہ کہیں کوئی تعمیراتی سکیم نہیں اور جہاں کہیں ہے تو وہاں چینی باشندے آکر مقامی بندے کو بیروزگار کرچکے ہیں۔
ٰ     یہ جو دار طبقہ ہے یہ مالدار،سرمایہ دار ،جا گیردار، کارخانہ دار، دکاندار،اور کئی اور دار ہیں جن کے مقابلے میں ایک اور دار ہے جس کو قرضدار کہتے ہیں جن کی آمدنی کا کوئی معقول زریعہ نہیں وہ جو قرضدار اس لئے ہیں کہ بال بچہ دار ہیں ویسے دار میں یہ بھی آتے ہیں مگر   دار بلکہ خشک لکڑی یعنی  دار کی حیثیت بھی نہیں رکھتے اور جلانے کے قابل بھی نہیں ان کے مقاابلے میں دوسرا   دار   طبقہ ہے  جو کاروبار کے میدان میں جائز اور نا جائز ہتھکنڈے بروئے کار لا کر اس قدر طاقتور ہوگیا ہے اور اس کے پھیلائے ہوئے جال اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ غریب پہلے تو ان جالوں کو جانتا نہیں  اگر کوئی جانتا بھی ہے تو اس میں اتنی سکت اور اتحاد نہیں کہ اس کے خلاف اٹھ کر آواز اٹھائے بلکہ بول کر بھی اپنے دل کا بھڑاس نکالے، اس وقت تین وقت کی روٹی والی بات کا زمانہ  گذر گیا اب  دو  وقت کی روٹی کی بات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، قانون  کی پاسداری کوئی چیز نہیں رہی، نہ نانبائی، نہ قصائی، نہ  سبزی فروش، نہ ریسٹوران والا، نہ ریڑھی والا، نہ ٹیکسی والا، کسی سے کوئی  پوچھنے والا نہیں ہے، ہر ایک اپنی من مانی کر رہا ہے یہ تو چھوٹے پیمانے کے طبقے کا حال ہے اس سے اوپر والا طبقہ اس سے بھی خطرناک کھیل میں مصروف ہے مثلا ملاوٹ کر رہا ہے، قیمتیں مصنوعی طور بڑھانے کا ماہر ہے پوچھنے پر ہڑتال شروع کردیتا ہے، لاک ڈاوئن کی دھمکی دیتا ہے، اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا دیتا ہے، کرائے بڑھا دیتا ہے اب ان کرایہ بڑھانے والوں کا حال سنئے
ہمارے ملک میں مکانات، دکان اور دفتر وغیرہ کرایئے پر دینے کا قانون موجود ہے، مگر ہر شہر میں روایتی طریقہ بھی قائم ہے جس کے مطابق بڑے  مگر مچھ  اپنی دکانیں اپنی مرضی اور اپنے بنائے ہوئے دیسی قوانین کرایہ دار پر لاگو کرتے ہیں  ایک چھوٹے سرمایہ رکھنے والے کاروبای شخص کے لئے ایڈوانس میں  یک مشت کئی لاکھ  روپے کی  ادائیگی ممکن نہیں ہوتی اور اوپر سے ایک  اور مگر آٓکر دگنی کرایہ پر دکان اپنے نام کر ا لیتا ہے اور کم  سرمایہ والا  مقابلہ نہیں کر سکتا، بڑا مگر  مچھ  پہلے ایک سال کے لئے معاہدہ کرتا ہے جو کرایہ دار کے لئے تکلیف دہ ہے کہ آگلے سال اس کو پھر اسی مگر مچھ سے نئے شرح پر دوبارہ معاہدہ کرنا پڑتا ہے یا اپنا سامان اٹھا کر نکل جاتا ہے، کرایہ داری کے قانون کو لچکدار بناکر چھوٹے کاروباری لوگوں کو  تحفظ اور بہتر مواقع فراہم کرنا چاہئے کہ وہ اطمینان سے کم از کم تین چار سال اپنا کاروبار چلا سکے اور ہر سال دکان کی تلاش میں  نہ  پھیرے، بڑھے مگر مچھ کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے ہر سال کرایہ دگنا نہ کرے بلکہ ایک خاص شرح سے ہر تیسرے   یا چوتھے سال اضافہ کرے اور   اضافہ کرتے وقت اپنا ٹیکس گوشوارہ دکھائے کہ اس نے خود  سرکار کو کتنا ٹیکس ادا کیا جو وہ اپنے کرایہ دار سے ڈیمانڈ کرتا ہے، اس کے سال بھر کی کاروبار کی اڈٹ ہونی چاہئے کہ وہ    روازانہ کا،  مہنے کا اور پورے سال کا  ریکارڈ  اڈٹ  والوں کو پیش کرسکے اور اپنی دیانت داری کا ثبوت پیش کرے، جو  کاروبای شخص یا ادارہ  یا  دکاندار  اڈٹ  سسٹم کے خلاف ہے یقینا وہ کسی نہ کسی گھپلے میں ملوث ہے اور اپنی چوری چھپانے کے لئے ہڑتال کی دھمکیاں دیتا ہے اور تاجر برادری کے نام سے ایک یونین بناکر حکومت کو بلیک میل کرتا رہتا ہے قانون کا نفاذ  نہایت  سختی سے ہونا چاہئے اور ہر فرد پر ہونا چاہئے ورنہ ملک سنبھالنا یا معیشت سدھارنا نا ممکن ہو جائییگا۔
چترال کی تنگ  سڑکوں پر دوڑنے والی این سی پی  گاڑیوں پر دگنا روڈ  اور رجسٹریشن ٹیکس لگایا جانا چاہئے آ خر یہ بے لگام کیوں ہیں ان پر بھی قانون کا نفاذ  ہونا چاہئے، وہ بھی حکومت کو  سرکا ری سہولیات کے لےء  ٹیکس ادا کریں وہ بھی تو یہ روڈ استعمال کر رہے ہیں بلکہ اوروں سے تین گنا زیادہ استعمال کرتے ہیں اور خطرناک  رفتار سے گاڑی چلاتے ہیں  جتنے بھی این سی پی گاڑیاں اس وقت چترال میں چل رہی ہیں ان سب کی رفتار انتہائی خطرناک ہے اور لوگوں کی خصوصا معذو ر، نابینا، ضعیف، خواتین اور بچوں کے لئے یہ غوگئے،مزدا،  پراڈو گاڑیاں اپنی تیز رفتاری کی ووجہ سے بہت خطرناک ہیں ٹریفک پو لیس کی توجہ اس طرف ہونی چاہئے اور انہیں کسی طرح بھی بے لگام نہیں چھوڑنا چاہئے کہ یہ میرے فلا ن دوست کی ہے۔یہ میرے فلان رشتہ دار کی ہے، یہ  فلان صاحب کی ہے، اس طرح تو ملک نہیں چلیگا اور پولیس سسٹم کا مقصد ہی ختم ہوگا کہ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔