تبدیلی کا جنازہ جارہا ہے

۔۔۔۔۔۔تحریر۔۔۔محمد کوثر کوثر (ایڈوکیٹ)۔۔۔۔۔۔۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اپنی ناکامی کو بھانپ چکا ہے اور مظلومانہ انداز سے حکومت سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔اسی لیے ابتدا سے لیکر اب تک اپوزیشن پر بےہیمانہ مظالم کرکے اپوزیشن کو اکسا کر اپنے خلاف تحریک چلانے پہ مجبور کررہا ہے تاکہ کل کلان عزت بچانے کے لیے یہ بہانہ توہو کہ ظالموں نے مدت پوری کرنے نہیں دٸے۔ورنہ ایک طرف مذاکراتی ٹیم بناکے اگلے ہی لمحے اس پر گالی کا “ھوچ”کرنا عمران خان کی نیت کو ظاھر کرتا ہے۔آپ یہ بات لکھ لیں کہ عمران خان آزادی مارچ پر تشدد کرکے حالات کو مزید خراب کرنے کے بعد احتجاجاً اسمبلیان تحلیل کرینگے۔یوں قوم یوط کے بچے کچھے ٹولے ھلکا سا “بُخ”کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قصہ پارینہ بن جاٸیں۔ دوسری جانب جو مجھے محسوس ہورہا ہے کہ بیرون ملک و اندروں ملک اپنے تقاریر میں اسٹبلشمنٹ کے بارے باتیں کرکے بیروں ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مظبوط سنگ بنیاد رکھ چکا ہے۔اگر بوقت فرار جاۓ پناہ کی ضرورت پڑی انکی یہ تقاریر بطور ثبوت نوشتہ شد تاکہ سند رہے۔۔۔۔۔ میرے منہ میں گھی شکر کہ میری دانست میں خان جی اڑان بھر چکا ہے۔اب واللہ اعلم یورپ میں لینڈ کریگا یا پھر سے دیکھاوے کے لیے انتخابات میں حصہ لیگا۔اس وقت حالیہ کارکردگی کی بنیاد پر شاید ایک دو سیٹیں جیت پاۓ ا۔مگر یہ طے ہے کہ تبدیلی کا غبارہ پھٹنے کو ہے اب یہ ہماری قسمت پہ منحصر ہے کہ “بوۓ غبارہ” “غریش لاچھیک کرتا ہے یا کہ خوشبو سے ہمیں معطر کرتا ہے۔ چھوٹی منہ بڑی بات کہنے جارہا ہوں خان کا اگر کوٸی مخلص ہے جو انکا قریبی بھی ہو وہ خان کو یہ مشورہ کیوں نہیں دیتا کہ خان صاحب اپنی بےاختیاری کا کھل کر اظہار کرکے قوم کو سچ سچ بتادینا چاہیئےکہ وہ اتنے بےبس کیوں ہیں پھر قوم سے بھرور مینڈیٹ کی اپیل کرکے اسمبلیان تحلیل کرکے صاف شفاف انتخابات کا اعلان کرنا چاہیئے۔شاید اس طرح خان صاحب اگلے الیکشن میں بھرپور حصہ لے سکتے ہیں۔۔۔حیرت ہے خان کا ایک بھی مخلص پارٹی میں نہ ہے  اب آتے ہیں تشدد پہ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آل پارٹیز تقریباً پانچ کروڑ حامل ووٹوں کے مالک جو ملکی آبادی کے حساب سے اور بھی ذیادہ بنتا ہے کیا ریاستی اداروں کا اپنے ہی باسیوں پر تشدد یا لاٹھی چارج پوری قوم پر لاٹھی چارج تصور نہیں ہوگا؟کیا ایسے تشدد کرنے سے پولیس جیسے اداروں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان نہیں ہوگا؟ کیا اپنے ہی عوام پر ظلم کرنے کی اجازت ریاست دےسکتا ہے؟ ممکن ہے ادارے ایسا کوٸی قدم نہ اٹھاٸیں کیونکہ اب دن پھر چکے ہیں۔اسٹالن کی آمریت انکے بعد سے صرف ستر سال چلی۔سب فنا ہے باقی صرف اللہ کی ذات ہے۔۔۔علمإ کا اقدام ہمیشہ خیرو برکت سے انجام پاتا ہے۔اس وقت لاکھوں علمإ ایک موقف پہ ڈٹ چکے ہیں اسکا مطلب ہے آزادی طلوع ہونے کو ہے۔ ہمیں دعا بھی خیروبرکت کے لیے کرنی چاہیۓ۔۔۔۔۔مگر یہ طے ہے کہ تبدیلی کا جنازہ جارہا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔