پس وپیش …….سوچ اور رائے کی آزادی 

……..  تحریر: اے۔ایم۔ خان …………
عزلت (پرائیوسی) اور اظہار رائے کی آزادی موجودہ وقت میں وہ بنیادی حقوق ہیں جن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ سال کیمبرج انیلٹیکا کے واقعے کے بعد اب ’’ ڈیٹا ایک بنیادی حق‘‘ پر قانون سازی کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک میں بحث چل رہی ہے۔ کسی بھی کمپنی کے ساتھ منسلک فرد یا سماجی رابطے کے ذرائع کے صارف  کا اپنے ذاتی معلومات ( پسند ناپسند، رائے اور خیالات) جو مجموعی طور پر انفرادی ڈیٹا میں شامل ہوتے ہیں کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔ اور یہ  ذاتی معلومات کسی ادارے اور کمپنی کے ساتھ جملہ حقوق محفوظ ہوتے ہیں جس میں سند حق ایجاد بھی زیر بحث ہے۔ اگر کوئی ادارہ یا کمپنی کسی فرد کا ڈیٹا کسی بھی طریقے سے یا ٹیکنیکی عمل ’’ہیکنگ‘‘ کے ذریعے رسائی کرتا ہے یا دوسروں کے ساتھ شیئر کرتا ہے تو قانونی کاروائی کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
جب امریکی صدر، بارک اوباما، دوسری مرتبہ منتخب ہونے کے بعد چین کے صدر کے ساتھ پہلے ملاقات میں موسمی تبدیلی کے بعد اہم موضوع پر بات کی تھی وہ انٹیلکچول پراپرٹی(آئی۔پی)  کے حوالے سے تھی۔  ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ سال سے چین کے خلاف ’’تجارتی جنگ‘‘ میں یہ الزام بار بار دھراتا ہے کہ چینی کمپنز آئی۔پی کے قوانین کی مخالفت کرتے ہیں جس سے انہیں کاروبار میں نقصان ہوتا ہے۔
ترقی پذیر خصوصاً وہ ممالک جہاں جمہوریت الیکشن کی حد تک محدود ہو وہاں پرائیوسی، اظہار رائے اور سوچ  کی آزادی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس ملک میں عوامی رائے کی اہمیت نہیں وہاں جمہوریت نہیں اور جہاں جمہوریت نہ ہو وہاں وہی رائے سرایت کرتی ہے جو عوام کی نہیں ہوتی۔ اور ایسے ممالک میں انفارمیشن کو پھیلانے اور آگے لے جانے کیلئے ’’بوٹس‘‘ کا استعمال ہوتا ہے۔ عوامی نمائندے عوامی بات کرنے اور کام کرنے کے بجائے سرکاری ملازم وہی بات اور کام سر انجام دیتے ہیں۔
پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے امرانہ دور حکومت میں میڈیا پر پابندی کے حوالے سے پڑھا تھا اور اب [۔۔۔] میڈیا میں کچھ ایسے اصطلاح بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جیسے مائیکرو منیجنگ، ریڈیکٹڈ،اور بلینک پیجز جو اُس دور میں میڈیا کے مدافعت کی شکل میں سامنے آرہے تھے۔ اور یہ بھی قابل غور بات ہے کہ پاکستان میں جنرل مشرف کے امرانہ حکومت میں ہی پیمرا آرڈیننس ۲۰۰۲ کے ذریعے میڈیا کو آزادی اور پرائیوٹ میڈیا کمپنیز کو کام کرنےکی اجازت دی گئی جس کا کیا اثر ہوا سب کو معلوم ہے۔ چودہ سال بعد ریاست پاکستان کی تاریخ میں  ۲۰۱۶ کو الیکٹرانک میڈیا ایکٹ جو اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے تیار ہوئی تھی موجود ہے۔
میڈیا سنسرشپ مقامی نہیں بلکہ ایک عالمی مسلہ بن چُکا ہے جوکہ ۱۱ ستمبرکے بعد زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اسٹریلیا میں گزشتہ پیر ریاستی سنسرشپ کے خلاف اخبارون کا احتجاج ہوا۔ اور جو کچھ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہوا جس میں میڈیا کو مکمل طور پر ’بلیک اوٹ‘ کیا گیا۔ اور ہمارے ملک میں میڈیا پر قدعن مختلیف شکل میں ہور ہی ہے۔  کراچی میں ایک آرٹسٹ کا فن ، ایک قومی اخبار کا کارٹون، اور مختلیف موضوعات پر رائے دینے پر پابندی اور میڈیا کوریج کا مسلہ ہوا تو رپورٹرز وداوٹ بارڈرز کے سربراہ ڈینیل بسٹرڈ کا ردعمل سامنے آیا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ پیمرا کی طرف سے یہ احکامات ’صحافتی آزادی  اور تکثیریت کے منافی‘ ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اسٹیون بٹلر ، صحافیوں کے تحفظ کیلئے کمیٹی، کے کوارڈنیٹر کو ائیرپورٹ سے واپس بھیج دینا ایک سوال بن چُکا ہے۔ معلومات کے مطابق اِس کانفرنس میں یہ اِنسانی حقوق اور اظہار رائے آزادی پر بات کرنے والے تھے۔
ٹیکنالوجی اورمعلومات کے ذرائع میں ترقی کی وجہ سے، اگر ایک طرف ، اظہار رائے اور سوچ کے اظہار کے ذرائع اور وسائل پیدا ہوئے ہیں، تو دوسری طرف، ان کے لئے خطرات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔  ریاست اور ادارے ، علم نفسیات میں ترقی کے موجب، اس علم اور سمجھ کو لے کر ہمارے سوچ، رویہ اور فیصلہ سازی پر اثر اندازہورہےہیں یعنی ہم سےایسے سوچ اور رویہ اپنایا جاتا ہے جو ان کے مطابق ہو۔ یعنی ہماری  رائے، عمل  اور سوچ کمپنی کے فائدے اور پروموشن کیلئے استعمال ہو۔ اور جو معلومات ہم مختلیف کمپنیز کے ساتھ جمع کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ ہمارے اندر داخل ہوتےہیں تو نہ صرف ہماری پرائیوسی (عزلت) انکے پاس چلی جاتی ہے بلکہ وہ ہمارے اوپر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ دُنیا میں اب ہمارے دماغ سے ہمارے سوچ کو ڈیکوڈ کرنے کا ایک فن ’برین کمپیوٹر انڑفیس‘ پر کام ہورہا ہے جس کا ایک نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک مشین ہمارے افکار کو پڑھنےکے قابل ہوگا اور ہمارے سوچ پر رسائی ایک مشین کو ہوگی۔ اس کا واضح مطب یہ ہے کہ ہماری سوچ، افکار اور رائے بھی منیپولیشن سے آزادی کی کشمکش میں اگر اب نہیں ہے تو ہو سکتاہے۔
انفارمیشن اورٹیکنالوجی میں ترقی اگر ہمیں معلومات کے ذرائع اور درکار وسائل پیدا کی ہے تو دوسری طرف یہ ترقی ہمارے ذاتی معلومات، افکار، سوچ، رویہ اور عمل پر بھی اثر انداز ہورہا ہے جس سے ہماری اظہار رائے اور سوچ کی آزادی متاثر ہونے کا خدشہ پیدا روز بروز زیادہ ہوتا جارہا ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔