دھڑکنوں کی زبان…..آہ ڈاکٹر صلاح الدین

مجھے پشاور شہر سے روحانی وابستگی ہے۔میرے ابو کی زندگی کے اٹھائیس سال پشاور شہر میں گزرے۔پشاور اس کی روح میں بسا ہوا تھا۔اب لفظ پشاور میں میری روح کے لئے بھی تازگی ہے۔پشاور ایسے لوگوں کا شہرہے کہ وہ خود ایک انجمن رہے۔ان کی زندگیاں چراغ ہیں۔ایک عطر بیز گلستان۔۔ہم نے ان کی زندگیاں پڑھی ہیں کسی سے ملنے کا شرف رہا ہے کسی سے نہیں۔۔لاہور کے ایک مشاعرے میں محسن احسان صاحب نے جب مجھے سینے سے لگایا تو مجھے دنیا جہان کی خوشی مل گئی۔ جناب خاطر غزنوی نے مجھے سینے سے لگایا اور کہا ”ارے پٹھان بچے“ پھر قہقہہ لگا کر فرمایا کہ یہاں پہ تم بھی پٹھان ہو پھر میری چترالی ٹوپی کی تعریف کی۔مجھے ان عظیم لوگوں کی زندگیوں کی ساعت ساعت انمول لگتی ہیں۔میں فارغ بخاری کی ”البم“ سرہانے رکھ کر پڑھتا ہوں۔۔پشاور پشاور ہے۔۔ میری جنت۔۔غالباً دو ہزار پندرہ کی بات ہے کہ انجمن ترقی کھوار چترال نے ”ہند کو ادبی انجمن“ کے تعاون سے ایک دو روزہ سمینار کا اہتمام کیا۔اس سمینار میں مختلف موضوعات پرمقالے شامل کئے گئے تھے۔ان کے علاوہ مشاعرے تھے۔رنگا رنگ پروگرام تھے۔۔سارا انتظام ہندکو ادبی پروگرام کا تھا۔۔پشاور سے جناب ضیاء الدین صاحب اور ڈاکٹر صلاح الدین اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے تھے۔۔ہم سامعین میں شامل تھے۔۔مجھے صرف ایک پروگرام کی میز بانی ملی تھی۔۔ڈاکٹر صلاح الدین اور ضیاء صاحب کی اپنی زبان”ہندکو“ سے محبت دیکھ کر مجھے رہ رہ کر ڈاکٹر فیضی صاحب کی کھوار سے محبت یاد آتی۔۔میری میز بانی کی باری آئی تو ڈاکٹر صلاح الدین مجھے غور سے گھو ر گھور کے دیکھنے لگے۔پروگرام ختم ہوا تو اسنے مجھے سینے سے لگایا اور کہا کہ تو تو پشاور کے محسن احسان کی زبان بولتے ہو۔اس کے بعد اکثر پروگرا م میرے حوالے کئے گئے۔مجھے ان پروگراموں میں جو مزہ ڈاکٹر صلاح الدین اور ضیاء الدین صاحب کی محبت میں ملی۔ شاید کہیں ملے۔ڈاکٹر صلا ح الدین نے ایک عشایئے کے دوران مجھے سائیڈ میں کرکے کہا۔۔جاوید یہ انجمن والے آپ سے کچھ لکھواتے کیوں نہیں۔مجھے ڈاکٹر فیضی صاحب نے آپ کے بارے میں بتایا کہ آپ اس کے چہیتے شاگرد بھی ہیں۔میں نے کہا سر!۔۔ میں کسی کے معیار پہ کیا بات کروں شایدمیں ان کے معیار کامقالہ نگار نہیں ہوں۔انھوں نے کہا کہ میں آپ کوپشاور ضرور بلاؤں گا۔۔تب مجھے اس کے بڑا پن کااحساس ہوا اور اس کے عظیم ہونے پہ یقین ہو گیا کہ وہ ادب کے ایک طفل مکتب کو مقام دے دیتا ہے اور اس کی اتنی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔۔ڈاکٹر صلاح الدین اپنی ذات میں انجمن تھے۔۔یہ لو گ خوشبوہوتے ہیں۔۔کسی زمانے،کسی معاشرے،کسی تہذیب،کسی زبان،کسی قوم کے لئے تحفے ہوتے ہیں اللہ ان کو کام کرنے کیلئے دنیا میں بھیجتا ہے۔ان کے پاس وقت کم ہوتا ہے اور کام زیادہ۔۔لیکن وہ کم وقت میں زیادہ کام کرکے اپنی خلا چھوڑ کرجاتے ہیں۔ڈاکٹر صلاح الدین ایک عظیم معالج تھے۔۔پیسے بٹور سکتے تھے۔دولت کے انبار لگا سکتے تھے لیکن اپنے پیچھے اتنی محبت اور اتنے کارنامے نہیں چھوڑ جا سکتے تھے۔۔چترا ل میں بیٹھے ادب کا ایک ادنی طالب علم اس کا گن گاتا ہے۔اس کوایسا لگتا ہے کہ صلاح الدین اس کا اپنا تھا۔۔اس کے سر سے سایا اُٹھ گیا۔ڈاکٹرصلاح الدین دلوں کے مسیحا تھے۔اُنہوں نے دلوں کے روگوں کاعلاج کیا لیکن ہردل میں اپنے لئے گھر بنا گیا۔۔مجھے رہ رہ کے احساس ہوتا ہے۔۔کہ کوئی دل کا مریض آپ کے سامنے بیٹھا ہو۔۔اپنا حال آپ کوبتا رہا ہو۔دل کاروگ آپ کو سنا رہا ہو اور آپ مسکرا کر اس کوتسلی دے رہے ہو ں۔۔میں سوچتا ہوں کہ اس کا مرض خود بخود ختم ہو چکا ہوگا۔۔اگر مسیحا کو دیکھ کر منہ پہ رونق آجائے تو بیمار کا حال اچھا نہ ہو تو اور کیا ہو۔ڈاکٹر صلاح الدین سے صرف دو دن کی ملاقات تھی۔لیکن دل میں ایسا گھر کر گیا تھا کہ اب لگتا ہے کہ پورا پشاور سوگوار ہے اور میرے دل میں روگ اٹھا ہے اب اس کا معالج کہاں سے ڈھونڈ لاؤں۔ڈاکٹر صلاح الدین عظیم قلمکارتھے ہم ان کے کالم پڑھتے۔۔ان کی شخصیت کرشماتی تھیں۔وہ بہت ”حسین“ تھے بہت ہی جادوئی شخصیت کے مالک۔۔آنکھوں میں اپنائیت کی چمک۔سر پہ کم چمکتے بال،ناک نقشہ بلا کا دلاویز،قدکاٹ موزون ترین،لہجہ شہدجیسا، باتیں میٹھی، انداز شائستہ،گفتگو مدلل،چہرے پہ مسکراہٹ سدا بہار،دل محبت بھرا،دوسروں کوجیتنے اور فتح کرنے کا گرو،ہرمحفل کی جان، اپنی ذات میں انجمن۔۔وہ موجود ہوں۔ایسالگے سب حاضر۔۔وہ نہ ہو تو لگے سب غیر حاضر۔۔یہ سراپامحبت ساری محبتیں سمیٹ کرکہیں گیا۔۔
سب کہاں کچھ لا لہ و گل میں نمایان ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہان ہو گئیں
ڈاکٹر صلاح الدین کے لئے دعائیں ہونگی۔اس کی یاد میں ریفریسیں ہو نگی۔ان کی خدمات کوسراہا جائے گا۔اس کی موت کو بہت بڑا نقصان کہا جائے گا۔۔لیکن میرے جیسے ایسے پرستار کا کیا ہوگا۔کہ اس کے بارے میں کسی کو پتہ نہ ہوکہ یہ بھی کوئی پرستار تھا۔ڈاکٹر صلاح الدین میری یادوں کا وہ چاندہے جو کبھی غروب نہیں ہو گا۔ان لوگوں کاکیاحال ہوگا جنہوں نے ان کے ساتھ بہت سارے دن گزارے۔۔مجھے لگتا ہے کہ دلوں کا وہ معالج واپس آئے۔میں دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے سامنے بیٹھوں۔وہ میرے دل پہ ہاتھ رکھے۔کیونکہ وہ دھڑکنوں کی زبان خوب جانتا تھا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔