حکومت میڈیکل جے آئی ٹی تشکیل دے ورنہ؟

……تحریر: تقدیرہ اجمل…..

ورنہ ایسے ایسے مسائل پیدا ہونگے جنکا کوئی سیاسی،قانونی،اخلاقی اورآئینی حل نہ ہو گا۔نواز شریف کی صحت ایک ایسا موضوع بن چکاہے جس سے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں موضوعات جنم لینگے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اگر مثالی وزیراعظم بننا ہے تو انھیں نائبین پر کم اور اپنی عقل و فہم اور غیر جانبدار اطلاعات پر زیادہ بھروسہ کرنا ہوگا۔
جنرل ضیاء الحق صبح کی نماز کے بعد اخبار کا مطالعہ کر تے تھے اور پھر خبریں سنتے تھے۔تب سماجی مسائل بھی کم تھے مگر صدر مملکت کو پورے ملک کی خبر ہوتی تھی۔ان کی اس عادت کی وجہ سے اُن کاا سٹاف ہمیشہ باخبر رہتا تھا۔مرحوم صدیق سالک نے ایک نجی محفل میں بتایا کہ ملک بھر کے اخباروں کے اہم تراشے اور کالم صبح صدر کے ٹیبل پر ہوتے اور وہ اُس فائل کاسب سے پہلے مطالعہ کرتے اورساتھ ہی احکامات بھی جاری کردیتے۔ وہ بعض اوقات پوچھ بھی لیتے کہ فلاں حادثے کے زخمیوں کا کیا بنا۔ عمر کوٹ جانے والی واٹر ٹرین باقاعدگی سے جا رہی ہے یا نہیں،کوئٹہ کے دورے کے دوران جو فنڈز سکولوں کو دیے گئے تھے وہ جاری ہوئے یا نہیں۔
صدر اور وزیراعظم کا کام گلی محلے سے شروع ہوتا ہے اور ایوان اقتدار تک آتا ہے۔اگر یہ بات کسی وزیر یا تدبیر یا مشیر کے سامنے کی جائے تو وہ کہے گا کہ صدر یا وزیر اعظم کیا کوئی میونسپل کارپوریشن کے چیئر مین ہیں۔ مگر وہ نہیں سوچتے کہ موجودہ وزیر اعظم سے پہلے بھی ایک وزیر اعظم تھے جنکا وزیر اعظم ایک سابق وزیر اعظم اور اسکی بیٹی تھی۔اس سے پہلے ایک صدرتھا جس نے دو نمائشی وزیراعظم رکھے اور دونوں سے خوب خدمت لی۔وہ ملک کے نہیں بلکہ صدر کے وزیر اعظم تھے اوراب بھی ہیں۔ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر بقول مولانا فضل الرحمان کے ابھی اسلام کا نفاد اور جمہوریت کی بحالی پر کام ہونا باقی ہے۔ موصوف کو اپنی مرضی کا اسلام اورجمہوریت درکار ہے۔یہی حال وزیر وں اور مشیروں کا ہے۔ انہیں بھی اپنی مرضی کا وزیراعظم چاہیے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت پرجتنا لکھا اور خرچ کیا جارہا ہے اتنا بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کی صحت اور موت پر نہ لکھا گیا۔گورنر جنرل کو کراچی کے ہوائی اڈے سے صرف ایمبولینس مہیا کی گئی۔نہ کوئی پروٹول، نہ حفاظتی عملہ اور اسکارڈ۔ پھر ریلوے پھاٹک بند کر دیا گیا اور ٹرین گزرنے کا لمباانتظار ہوا۔ آگے چل کر ایمبولینس کا پیٹرول ختم ہوگیا اور دوسری ایمبولینس آنے تک گورنر جنرل اپنی بہن اور ایک نرس کی حفاظت میں سڑک کے کنارے انتظار کر تے رہے۔ یہ ُاس شخص کی کہانی ہے جس نے حکومت ہند، کانگرس،اکابرین دیو بند اور سر حدی گاندھی کے پیرا کاروں سے لڑکر یہ ملک آزاد کر وایا تھا۔
میاں نواز شریف اور آصف علی زر داری نے جس بے دردی سے اس ملک کو لوٹا وہ کوئی خفیہ کہانی نہیں بلکہ آئین اور قانون انہیں نہ صرف تحفظ مہیا کر رہا ہے بلکہ ان کی نت نئی چالوں او رسازشوں کو آئین اورقانون کا حصہ بنایا جارہا ہے۔
تین بار وزیر اعظم کی رَٹ میں کروڑو پاکستانیوں کی تو ہین ہے۔وہ شخص جس نے دولت کی قوت سے تین بار وزرات عظمیٰ خریدی اس کی صحت اورزندگی کی ضمانت مانگی جارہی ہے۔سوال بلکہ عرض ہے کہ کیا یہ اللہ کے قانون کی توہین نہیں؟ خالق کائنات نے جب کہہ دیا ہے کہ زندگی اور موت میرے حکم سے ہے تمہیں تو صرف آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔کیا میاں نواز شریف اللہ کے اِس حکم سے بھی مبّرا ہیں۔یہ کہنا کہ تین بار کے وزیر اعظم کو عام قیدیوں سے تشبیح نہ دی جائے کیا قانون میں کوئی خاص قیدی بھی ہے؟ وزیر اعظم پاکستان کو چاہیے کہ وہ فی الفور ایک میڈیکل جے آئی ٹی تشکیل دیں جس میں چاروں صوبوں کے ماہرین امراض اور پاکستان آرمی میڈیکل کو ر کے سینئر ڈاکٹر شامل ہوں۔اُن کے ٹیسٹ سی ایم ایچ، اے ایف آئی سی، اے ایف آئی پی اور آر آئی سی میں بھی بھجوائے جائیں۔
ڈاکٹروں کی موجودہ ٹیم اور میڈیکل بورڈ متنازع ہوچکا ہے۔ بہت سے ٹیلویژن چینلوں نے دبے لفظوں میں حقائق سے پردہ پوشی کی طرف اشارہ کیا ہے جو بے وجہ نہیں۔اگر وزیراعظم واقعی این آر او دینے کے چکر میں نہیں تو پھر جو کچھ ہورہا ہے وہ بظاہر این آر او کی طر ف ہی جارہا ہے۔اگر عمران خان اس ڈیل سے بے خبر ہیں توانہیں خبر ہونی چاہیے اور اگرخبر رکھتے ہیں تو اسے عوام کے سامنے رکھیں ورنہ ان کی سیاست اور حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔عمران خان ناقابل اعتماد سیاستدان بن کر گم گشتہ تاریخ کا حصہ بن جائینگے۔کوئی انہیں مرحوم وزیر اعظم جونیجو، یوسف رضا گیلانی،اور راجہ پرویز اشرف جتنی اہمیت بھی نہ دے گا۔وزیر اعظم کو پتہ ہونا چاہیے کہ میاں نواز شریف کی اچانک اور نامعلوم بیماری کی اصل وجہ کیا ہے۔ ایک ٹیلیویژن چینل پر شام سات سے آٹھ بجے تک میاں نواز شریف کی بیماری اور میڈیکل بورڈ کی جانبداری پر پروگرام چلتا ہے جبکہ بہت سے چینل اور دانشور اینکر اور صحافی سنسنی خیز خبریں اور تبصرے پیش کر رہے ہیں۔ ان صحافیوں کے مطابق مسئلہ کشمیر سے بڑھ کر میاں نواز شریف کی صحت کا مسئلہ ہے۔ جب سے میاں صاحب کے خونی خلیوں میں اُتار چڑھا آیا ہے کشمیریوں کا خون بے اہمیت ہوگیا ہے۔
عمران خان کے وزیر،مشیر اور نورتن بھی پس قدمی اختیار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کو عمران خان کے کسی بڑے یوٹرن کا اندیشہ ہے۔عمران خان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ُان کے ارد گرد جو لوگ ہیں یہ جنرل مشرف، صدر زر داری اور میاں برادران کے بھی قصیدہ گو رہے ہیں۔
اگر عمران خان کسی این آر او کا حصہ نہیں تو ان کی ٹیم کا لب و لہجہ معذرت خوا نہ کیوں ہے؟پنجاب کی وزیر صحت میاں صاحب کی بیماری پر ایسے ہی تبصرہ کرنے آتی ہیں جسے کارگل کی جنگ میں مشاہد حسین سیّد اور جنرل راشد قریشی جنگ کی تازہ ترین صورت حالات سے قوم کوباخبر کر تے تھے۔
جس طرح میاں نواز شریف عام مریض اور عام قیدی نہیں اسی طرح خاص آدمی اور عام آدمی میں بھی فرق ہے۔خاص آدمی کی پہچان پیسہ، عہدہ،رُتبہ، قانون شکنی،بد عہدی او ربد اخلاقی ہے۔عام آدمی کی پہچان،غریبی، بیماری،قانون کی پاسداری، خاموشی،صبر و تحمل او ر ہر سطح کے خاص آدمی کی خدمت اورغلامی ہے۔
عام آدمی کی خاموشی سب سے بلند آواز توہوتی ہے مگر خدا کے سوا اُسے کوئی نہیں سنتا۔عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ عام آدمی کی آواز بن جائیگا۔حیر ت ہے کہ جس شخص کو عام آدمی کی زبان ہی نہیں آتی وہ عام آدمی کی آواز کیسے بن سکتا ہے۔ عمران خان کو عام آدمی کی زبان سمجھنے کے لیے ان کے درمیان جانا ہوگا۔ورنہ وہ میاں نواز شریف اور زر داری کی طر ح خواص کی ہی نمائندگی کرتے رہیں گے۔31اکتوبر کے دن رحیم یار خان کے قریب ریل گاڑی کو آگ لگی ہوئی تھی اور رپورٹر خبریں دے رہے تھے،افسر تبصرہ کررہے تھے اور بڑے افسر سورہے تھے۔وزیر اعظم کہاں تھے۔اسکا احوال ارباب شہزادہی جانتے ہونگے۔شیخ رشید جاگ تو گئے مگر بیان کی حدسے آگے نہ گئے۔حادثات تو ہوجاتے ہیں مگر حکومتیں اور حکمران سوئے رہتے ہیں۔شیخ رشید نے یہ تو بتا دیا کہ حادثہ تبلغی جماعت والوں کی وجہ سے ہوا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ گیس کے سلینڈر اور چولہے ساتھ رکھنا منع ہے مگر اجتماع کے دوران یہ لوگ ایسا کرتے ہیں۔اسکا صاف مطلب تھا کہ اجتماع کے دوران قانون پر عمل نہیں ہوتا حالانکہ اجتماع کا مقصد ہی ڈسپلن اور قانون پر عملداری ہے۔شیخ رشید نے یہ نہیں بتایاکہ وہ رائے ونڈ کے منتظم اعلیٰ سے بات کرینگے کہ ان کے متعلقین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ شیخ رشید کو پتہ ہے کہ اگروہ ایسا کہینگے تو تبلیغی جماعت ان کے خلاف احتجاج کرے گی ایک مارچ کے بعد ایک اور مارچ کا سامنا ہوگا۔
ویسے بھی مرنے والے عام لوگ تھے خاص تھوڑے ہی تھے۔تین بار حکومت کرنے والا نواز شریف اور حادثے میں زخمی ہونے والا عام آدمی دو الگ انسان ہیں۔عام آدمی کی مرتے ہی قیمت لگ جاتی ہے جو زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ قیمت بھی ہرکسی کو نہیں ملتی اور نہ ہی انصاف ملتا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں سینکڑوں عام لوگوں کو زندہ جلا دیا گیامگر نہ قیمت لگی او رنہ ہی انصاف ملا۔ ماڈل ٹاؤن سانحے پر بھی ایک جے آئی ٹی بنی تھی جس نے مرنے والوں کو مجر م ٹھہرایا۔ سانحہ ساہیوال پر بھی ایسا ہی ہوا اور مجرم بے قصور ٹھہرے۔اب اگر میڈیکل جے آئی ٹی بھی بن جائے تو کیا حرج ہے۔ کچھ توہے جسکی پردہ داری ہے۔پردہ وقت پراُٹھ جائے تو اچھا ہے ورنہ کئی پردہ پوشی نشینوں کا پردہ چاک ہوجائیگا۔اینکر صحافی صابر شاکر نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر میاں نواز شریف کا جہاز خاموشی سے اُڑ گیا تو وزیراعظم عمران خان کو بعد میں پچھتانا پڑے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔