دھڑکنوں کی زبان…. پروفیسر مسر ت جبین

اگر میں مسرت جبین کو ایک روایتی چترالی بہن،بیٹی کہوں تو پھر آگے کس طرح لکھوں کہ وہ ایک مایہ ء ناز تعلیمی ادارے گورنمنٹ زنانہ ڈگری کالج کی بے مثال پرنسپل ہیں۔۔مگر کیسے لکھوں کہ یہ بھولی بھالی بہن ایک بے مثال منتظم اور اعلی استاد ہیں۔ میں کیسے لکھوں کہ یہ گھر میں اپنا باورچی خانہ خود سنبھالنے والی اپنے دفتر میں ایک رعب داب کی آفیسر ہیں۔میں کیسے بتانے لگوں کہ گھر میں اپنے بچوں کے لئے نرم مزاج اور حلیم ماں اپنے ادارے میں تربیت کی ایک چٹان ہیں۔اُنہوں نے اپنی اصول پرستی سے ثابت کر دیا ہے کہ عورت ذات جب کچھ کرنے پہ آتی ہے تو یقینا کوہ سے دریا بہاتی ہے۔پروفیسر مسرت جبین ایک عظیم باپ کی بیٹی اور ایک علمی خانوادے کی چشم و چراغ ہیں آپ کے ابومکرم شاہ صاحب تعلیم، ادب اور تاریخ کے ایک حوالے ہیں آپ ان کی صاحبزادی ہیں اور ان کی عضب کی چہیتی بھی ہیں اس لئے کہ انھوں نے عظیم باپ کے علمی مرتبے،ادبی معیار اور تاریخی لاج کی لاج رکھی ہے۔۔ان سے مل کر بر ملا کہا جا سکتا ہے کہ واقعی یہ شاہ صاحب کی تربیت یافتہ ہیں۔آپ نے شاہ صاحب کے گھر واقع وریجون موڑکھو میں آنکھ کھولی۔۔پہلی اولاد تھی اس لئے نازوں کی دلہن بنی اور نازوں میں پلی۔ آپ کی تربیت روایتی انداز میں ہوئی۔خاندانی روایات جس میں بڑوں کا احترام،چھوٹوں پہ شفقت،الفاظ و آداب نشست و برخواست،وقت کی پابندی،گھر گرستی کے کام سب بڑی ترتیب سے تربیت کے حصے بنتے گئے اور زندگی گلستان بنتی گئی۔آپ نے ہائی سکو ل وریجون سے میٹرک پاس کیاپھر فرنٹیر کالج پشاور سے پڑھی۔ایم ایس سی کمسٹری پشاور یونیورسٹی سے کیا۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ، ایم ایڈ کیا۔سایورج سکول اور کالج میں کیمسٹری پڑھاتی رہیں پھرگورنمنٹ گرلزڈگری کالج میں کمیشن پاس کرکے کیمسٹری کی لکچرر مقرر ہوئیں۔آج کل اسی کالج میں پرنسپل ہیں۔
پروفیسر مسرت جبین ایک ”پروفیسر“ ہوتیں تو شاید اس کے بارے میں اتنی ساری باتیں لکھنا ممکن نہ تھا وہ پروفیسر سے آگے کچھ مرتبہ رکھتی ہیں ان کورب نے باصلاحیت پیدا کیا ہے۔ان کی شخصیت کے اتنے سارے پہلو ہیں کہ گنے نہ جائیں۔وہ قوم کی ایک پرہنر بیٹی ہیں اور اپنی صلاحیت قو م پہ تج دیتی ہیں۔وہ پروفیسر بن کر اپنی کلاس میں کیمسٹری پڑھا کرکہہ سکتی تھیں کہ میں نے اپنا فرض پورا کیا لیکن وہ ایک درد اُٹھا کے پھرتی ہیں۔ان کے سامنے قوم کا مستقبل ہے اور جیتا جاگتا، تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ چترال ہے۔آپ نے اپنے ادارے کو ایسا بنایا ہے کہ گویا یہ چترالی تہذیب سیکھانے کی ایک اکیڈیمی ہے۔اس کے سامنے اس کے سٹوڈنٹ ننگے سر نہیں ہو سکتیں۔۔ان کی سٹاف ممبر کوئی لفظ ایسا نہیں بولتیں جو موتی نہ ہوں۔۔انھوں نے چترالی بچیوں کی تربیت کا گویا بیڑھا اُٹھارکھی ہے اور اپنی سٹاف کے ساتھ واقع قوم کی بے مثا ل خدمت کر رہی ہے۔وہ میرٹ کی چمپیئن ہیں کہ آج کل آپ کا ادارہ صوبے کے بہترین اداروں میں سے ہے اور وہاں داخلہ لینا طلباء کا خواب ہے۔ان کے کالج نے بہترین کارکردگی کے انعامات جیتا ہے ان کے اساتذہ اپنے اپنے شعبوں میں نمایان کارکردگی دیکھاتی ہیں۔ان کے کالج کی وائس پرنسپل پروفیسر عائشہ کو سال 2016ء۔۔2017ء کا”بسٹ ٹیچر“ بہترین استاد کاصوبائی سطح پر انعام دیا گیا۔۔پروفیسر عائشہ انگریزی ادب کے ایک بڑے نام ہیں جن پہ الگ بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔ مسس الوینہ جاویدلکچرر کمپیو ٹر سائنس کو سال 2017ء۔۔2018 ء کے”بسٹ ٹیچر“ کا انعام دیاگیا۔ان کی سٹاف کی ہر ممبر اپنی ذات میں ایک ریفرنس ہیں جنہوں نے اس ادارے کو مثالی بنایا ہے ان کی طالبات مختلف مقابلوں میں اپنے کالج کا نام روشن کرتی ہیں۔ ان کا ادارہ سال2017ء۔۔2018ء کا ضلع بھر میں ٍ ٍٍٍ76نمبر لے کر پورے چترال کے اداروں میں پہلے نمبر پہ رہا۔۔ٍیہ ان کی ان تھک محنت اور خلوص کا نتیجہ ہے۔پروفیسر مسرت کا مسکراتا چہرہ استقلال کا ماہ نور لگتا ہے۔اس کا عزم پختہ ہے ان کے ارادے بلند ہیں وہ اوالعزم ہیں اور دنشمند بھی۔۔ وہ اپنی توانائیاں ضائع نہیں کرتیں۔ان کو ان کی زندگی قیمتی لگتی ہے اس کاخود آپ کو بھی احساس ہے۔ پروفیسر مسرت با ہمت ہیں بہت با ہمت۔۔کوئی کام کوئی منصوبہ اس کو ناممکن نہیں لگتا کوئی خیال کوئی تصور ان کو ماوراء نہیں لگتا۔ شاید اس کی ڈیکشنری میں بھی ”ناممکن“ لفظ نہیں۔پروفیسر مسرت حلیم اور بردبار ہیں۔منکسر المزاجی بہت ہے۔انسان شناس،ذکی اور زیرک ہیں۔حالات کے زیر وبم جانتی ہیں اس لئے کبھی چیلنچز کا سامنا کرکے سہم سی نہیں جاتیں۔ چہرے پہ مسکراہٹ ہمیشہ پھیلی رہتی ہے۔سخن شرین،گفتگو مدلل،الفاظ شگوفے، انداز عالمانہ،جملے موتی، اردواغلاط سے پاک،کھوار ٹیکسالی اور مخاطب کو مبہوت کرنے کا گرو۔۔۔پروفیسر مسرت جبین سچ مچ میں ”لکچرر“ہیں اس لئے آپ کے سارے شاگرد آپ کے معتقد ہیں۔ یہ چترال کی ان شخصیات میں شامل ہیں جو دور، قوم اور علاقے کی خوبصورتی بھی ہوتی ہیں اور اپنے دور کا مسیحا بھی۔یہ قوم کی کشتی سنبھالتی ہیں اور منجدھاروں سے نکالتی ہیں۔یہ قوم کے ستون مضبوط گاڑتی ہیں اور آسمان تک لے جاتی ہیں۔ان چمکتے تاروں کی جھرمٹ میں پروفیسر مسرت جبین نمایان ہیں۔رب اس کو شادمان رکھے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔