دادبیداد…..لوکل گورنمنٹ کااونٹ

…….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی…..

خیبر پختونخوا میں لوکل گورنمنٹ کے منتخب ارکان کی مدت آگست2019میں ختم ہوگئی حکومت بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کا حکمنامہ جاری کرکے 3مہینوں کے اندر نئے انتخابات کا عندیہ دے دیا۔لیکن3مہینے گذرنے کے باوجود لوکل گورنمنٹ کا اونٹ بَدو کے خیمے کے باہر کھڑاہے کسی بھی کروٹ بیٹھنے کا نام نہیں لیتا۔نہ ہی بَدو اس کو خیمے کے اندر جانے دیتا ہے۔اونٹ کے بارے میں ہمارے ہاں ایک مقولہ بھی مشہور ہے”اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی“چنانچہ بَدو آج لوکل گورنمنٹ کے اونٹ کو سر سے پاؤں تک غور سے دیکھ رہاہے۔بَدوخود حیراں ہے یہ کیسا اونٹ ہے نہ اس کا سر سیدھا ہے نہ اس کی کمر سیدھی ہے۔نہ اس کا کوہان سیدھا ہے نہ اس کی ٹانگیں سیدھی ہیں۔ہمارے ہاں لوکل گورنمنٹ کانظام فیلڈ مارشل ایوب خان نے1960ء میں متعارف کرایا اس کانام بنیادی جمہوریت (بیسک ڈیمو کریسی)تھا۔مخفف کرکے اس کو بی ڈی کانام دیا گیا۔1960ء اور1964ء میں اس کے انتخابات ہوئے۔بی ڈی کے80ہزارممبروں نے پہلے صوبائی اور قومی اسمبلی کے لئے نامزد اُمیدواروں کو ووٹ دیے پھر ایوب خان کو ووٹ دے کر صدر منتخب کیا۔گویا اس کا درجہ حلقہ نیابت یا الیکٹیو رل کالج کا تھا۔اس وجہ سے بی ڈی کے ممبرو ں کی بڑی عزت اور وقعت تھی۔خیبرپختونخوا میں لوکل گورنمنٹ کا چھٹا قانون(LGO)پاس ہوا ہے۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ ضلع کونسل کو ختم کردیا گیا ہے۔ضلع کونسل کے سربراہ کانام چیئرمین سے ناظم میں تبدیل کیا گیا تھا۔اب سرکار کا ارشادعالی ہے کہ ضلع کی سطح پر نہ کوئی منتخب ادارہ ہوگا نہ اس کا سربراہ ہوگا۔لوکل گورنمنٹ تحصیل کی سطح پر ختم ہو جائیگی۔تحصیل میونسپل کونسل کو فنڈ ملینگے۔جو ویلیج کونسل کی سطح پر خرچ کئے جائینگے۔تحصیل کی سطح پر جو سربراہ ہوگا وہ چیئرمین کہلائے گامگر پروٹوکول کے لحاظ سے اس کا درجہ تحصیلدار کے برابر ہوگا۔ویلیج کونسل کے چیئرمین کا درجہ نائب تحصیلدار کے مساوی ہوگا۔بقول غالب ”کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا“ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے لئے مطلوبہ فنڈالیکشن کمیشن کو جاری کیا ہے مگر الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے سے معذرت کی ہے یعنی تعطل برقرار رہے گا۔ویسے سچ پوچھئیے تو آج کل ملک کے دیگرصوبوں سے بھی لوکل گورنمنٹ کی کوئی خبر نہیں آتی۔اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔وہ لوگ بھی کافی عرصے سے لاپتہ ہیں۔کراچی والوں نے بھی بندوقوں کے سایے میں پل کر جواں ہونے والوں کو منتخب کیا تھا۔ان کا ایک میئر بھی ہوا کرتا تھا۔لوکل گورنمنٹ کے تمام منتخب ادارے اور تمام منتخب لوگ لاپتہ ہیں اگر وطن عزیز میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا پودا ہے جو مارشل لاء کے دور میں فوجی حکمران کے زیر سایہ پھلتا پھولتاہے۔جمہوریت اس کو راس نہیں آتی۔جمہوریت کیوں اس کو راس نہیں آتی؟اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ممبران اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ لوکل گورنمنٹ کو اپنا حریف سمجھتے ہیں وہ اس نظام کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔چنانچہ لوکل گورنمنٹ کا اونٹ ایک بارپھر بَدوکے خیمے کے باہر کھڑاہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔