وفاق کے لئے حمایت

محمد شریف شکیب

چاروں وفاقی ایکائیوں نے عالمی مالیاتی فنڈ کے مقررہ اہداف پورے کرنے میں وفاق پاکستان کی مدد کرنے کی خاطر اپنے ترقیاتی اخراجات کم کرکے 2 کھرب 2 ارب روپے کی رقم وفاقی حکومت کوواپس کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبوں نے وفاق کی جانب سے تقسیم کیے جانے والے فنڈز میں سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک چوتھائی سے زائد رقم استعمال نہیں کی۔خیبر پختونخوا، پنجاب، بلوچستان اور سندھ نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران کفایت شعاری مہم کے تحت پیسے بچا کر وفاق کی مدد کی۔وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق پہلی سہ ماہی میں صوبوں کی مجموعی آمدن 7 کھرب 91 ارب روپے تھی جس میں قابل تقسیم محاصل میں ان کا مشترکہ حصہ 6 کھرب 12 ارب 50 کروڑ روپے ہے جبکہ صوبائی ٹیکسز 1 کھرب 4 ارب 50 کروڑ روپے ہیں۔صوبوں نے صرف 5 کھرب 89 ارب روپے اپنے ترقیاتی منصوبوں اور غیر ترقیاتی مدوں میں خرچ کیے۔صوبوں کو دستیاب آمدن میں سے ترقیاتی کاموں پر اخراجات کی شرح محض 9 فیصد رہی۔پنجاب نے 3 کھرب 66 ارب روپے کی مجموعی آمدن کا 21 فیصد یعنی 75 ارب 40کروڑ روپے، خیبرپختونخوا نے اپنی کْل آمدن ایک کھرب 41 ارب روپے کا 38 فیصد یا ایک تہائی سے زائد 54 ارب روپے،بلوچستان حکومت نے اپنی آمدن کا سب سے زیادہ حصہ یعنی 37 ارب 30 کروڑ روپے جبکہ سندھ نے سب سے کم یعنی 35 ارب 50 کروڑ روپے وفاق کوفراہم کیے جو اس کی مجموعی آمدن کے 18 فیصد حصے سے بھی کم ہے۔ سرکاری خزانے کے موثر انتظامات اور حکومت کی مالیاتی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے صوبوں کے اخراجات کو محدود کرنا پاکستان کو قرضہ فراہم کرنے کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل تھا۔خیبر پختونخوا اور پنجاب میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی مخلوط حکومت میں شامل ہے ان کا وفاق پاکستان کی کفایت شعاری مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا کوئی انہونی بات نہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی 35ارب روپے وفاق کو واپس کرکے اپنا حق ادا کردیا۔ جو وفاقی ایکائیوں میں یگانگت اور قومی مفاد کے لئے قربانی کی بہترین مثال ہے۔ معاملے کو اگر سیاسی ترازو میں تولا جائے تو مخالفت کے سو جواز بنتے ہیں لیکن قومی مفاد کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تویہ قابل تقلید حکمت عملی ہے۔قومی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو منجدھار سے نکال کر ساحل مرادتک لانے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مدد حاصل کرنا پاکستان کی مجبوری تھی۔ اور قرضہ لینے کے لئے مقروض اپنی شرائط نہیں منوا سکتا بلکہ قرض دینے والے کی شرائط قبول کرنی پڑتی ہیں۔ معیشت کو سہارا دینے کے لئے قرضہ لینا کوئی معیوب بات نہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت بھی قرضوں پر انحصار کرتی ہے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ بیرونی قرضہ کن مدوں میں خرچ کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی قرضوں پر اگر قومی ترقی کے بڑے منصوبے شروع کئے جاتے ہیں تو یہ قرضوں کا درست اور تعمیری استعمال ہے۔ اگر ذاتی کمیشن اور کک بیکس کے لئے قرضے لئے جاتے ہیں تو یہ قوم پر ظلم ہے اور بدقسمتی سے ماضی میں یہی ہوتا رہا ہے۔ قوم کو بجلی فراہم کرنے کے نام پر بھی بھاری کمیشن لے کر رینٹل پاور پلانٹس درآمد کئے گئے۔ متعدد تھرمل پاور پلانٹس آج تک نصب ہی نہیں کئے گئے۔ کچھ صنعتوں کی مشینری کراچی کی بندرگاہ پر پڑی زنگ آلود ہوچکی ہے۔ کروڑوں اربوں روپے مالیت کے پلانٹس لگانے کے باوجود ان سے ایک کلو واٹ بجلی پیدا نہیں کی گئی۔ کمیشن لینے والے اپنا حصہ بٹور کر رفو چکر ہوگئے اور قرضوں کو سود سمیت واپس کرنا قوم پرقرض ہے۔آج ملک کا ہر شہری آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، پیرس کلب، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ اسلامی بینک کے علاوہ مختلف مالیاتی اداروں کا لاکھوں کا مقروض ہے۔ غیر ملکی قرضوں کو قومی وسائل کو فروغ دینے پر خرچ کیا جاتا تو آج ہم نہ صرف خود کفیل ہوتے بلکہ بجلی، زرعی پیداوار اور صنعتی مصنوعات برآمد کرنے والے ملکوں کی صف ہیں ہوتے۔قرض مکاو ملک بناو، قرض اتارو ملک سنوارو کے دلکش نعرے لگا کر قوم سے بھی چندہ بٹور کر حکمران ہڑپ کر گئے۔ اگر حکومتی سطح پر سادگی اور کفایت شعاری اختیار کی جاتی تو بیرونی قرضوں سے اب تک چھٹکارہ مل چکا ہوتا۔ کفایت شعاری مہم کے تحت وسائل کی بچت بلاشبہ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم کی بڑی کامیابی ہے۔ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ معاشی طور پر بحرانی کیفیت سے قوم نکل چکی ہے اب ترقی کا دور شروع ہوگا، مہنگائی میں کمی ہوگی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔وفاق کی طرف سے حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کو بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات کی مد میں اڑھائی ارب روپے کی واپسی کے وعدے سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ قوم کو اس کی قربانیوں کا صلہ مستقبل قریب میں ضرور ملے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔