پس و پیش ۔۔۔ سوشیل کولیٹرلز

۔۔۔اے۔ایم خان……

بزنس اور بینکاری کے پیشے میں” کولیٹرل”  وہ پراپرٹی یا اثاثہ ہوتی ہے جسے ایک ادارہ سیکیورٹی  کی مد میں اپنے ساتھ اُس مقصد کی خاطر رکھتی ہے کہ اگر صارف کسی بھی صورت یا حالت میں ڈیفالٹ میں آجائے تو اُس وقت بینک جو رقم قرضدار کو دی تھی اُس کی مد میں لےلیتا ہے۔
قدیم فرانسیسی اور لاطینی زبان سے ماخوذ  لفظ ،کولیٹرل ، پندرہویں صدی کے وسط سے انگریزی میں استعمال ہونے لگا ۔ 1873سے قانونی معاملات اور کیسز میں ” کولیٹرل ڈیمج”  کے اصطلاح کا استعمال شروع ہونے لگا۔  موجودہ اصطلاح ، نیوکلیائی ہتھیاروں کے تناظرمیں ، اور موجودہ وقت میں جنگ کی صورت میں افواج کے ساتھ  بیک وقت اگر سویلین  ہلاک ہو جاتے ہیں اُن کیلئےاستعمال ہوتی ہے۔  امریکن انگریزی میں یہ اصطلاح 1968 میں شامل ہوگئی۔
ریاست پاکستان کے تناظر میں  ” کولیٹرل ” کے ساتھ “ڈیمج” کا اضافہ نائن الیون کے بعد شروغ ہوا جب پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے بے گناہ لوگوں کے اموات ہونے لگے۔  اگر ہم  “کولیٹرل ڈیمج” کو مقامی سیاق وسباق کے تناظر میں دیکھنا چاہیں تو یہ ایک دلچسپ امر ہوگا کہ جنگ کے بغیر پاکستان میں مختلیف واقعات و حادثات میں درجنوں معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جان ومال چلی جاتی ہے اُن پر کوئی خاص بات بھی نہیں ہوتی ، اگر ہوتی بھی ہے تو افسوس کا اظہار اور مذمتی بیاں اخبار یا ٹی۔وی میں آجاتی ہے۔ اور اگر حالات شدید ہوں تو وزیراعظم یا وزیر اعلی اُن کیلئے مالی معاونت کا اعلان کرتی ہے اور یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ حقیقت پسندانہ طور پر کوئی عمل  اور ردعمل دیکھنے میں نہیں آتا کہ ایسے حالات اور واقعات کا تدارک کسطرح ہو جس سے محروم طبقہ متاثر ہوتا آرہا ہے؟  ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب اپنے کالم “ڈیجیٹل پاکستان ” میں اس مسلے کی عکاسی شیر نواز خان کے حوالے سے کرتا ہے جوکہ وہ کہانی ہے جو محروم اور سہولیات سے لیس طبقے کے درمیاں فرق اور فاصلے کی وضاحت ہے۔  اور یہ لوگ جو حکومتی عدم توجہ اور بین الاقوامی تعارف میں نہیں آجاتے اُنہیں لوکیلائز کرنے کی ضرورت ہے۔  اور یہ جو طبقہ ہے معاشرے میں پسماندہ ،مدار سے باہر،  اور حالات و واقعا ت کا حصہ نہ ہوتے ہوئے سب سے زیادہ اُسکا شکار ہوتا ہے معاشرے میں اُس طبقے کو میں “سوشیل کولیٹرل” کہنے کی جسارت کرتا ہوں۔
دلچسپی کی بات یہ ہے ، جوکہ دیکھنے میں بھی آئی ہے، کہ ہمارے ملک میں ہر وہ بات شہ سرخی بن جاتی ہے ، کام جس پر کام شروع ہوجاتی ہے اور  وہ مسائل جس پر بحث ہوتی ہے جو اُس طبقے سے منسلک ہو جو کم ازکم کولیٹرلز کے زمرے میں نہیں آتے۔ پارلیمنٹ میں سیاسی گٹھ جوڑ جو بھی ہے وہ سیاسی جماعتوں سے زیادہ سیاسی شخصیات کی ہے اور جو بھی بات ہوتی ہے وہ سیاسی نوعیت کی ہے۔ پارلیمنٹ اگر اب غیرفعال ہے ، قانون سازی نہیں ہورہی ، اور جمہوری اقدار کی پیروی نہیں ہوتی تو یہ جو عوامی نمائندے وہاں بیٹھے ہیں اُن کی غیر جمہوری رویہ اور ناکامی ہے نہ کہ عوام کی۔  اور ایک جمہوری ادارہ اپنا آئینی کام نہ کرنےکی وجہ سے حکمران جماعت آرڈیننس سے کام چلاتی ہے۔ ہاں اُن لوگوں کو انتخاب جو آج پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں کو ہم [عوام ]نے آج اور اس سےپہلےخود منتخب کرتےآرہےہیں۔
ملک میں مہنگائی  اور بے روزگاری پر کوئی بات اسمبلی میں نہیں ہو رہا ، اور  انصاف کی بات کی جائے تو  جو ہورہی ہے وہ بھی  سیاسی  اور غیر منصفانہ ہونے کا تاثر دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ  سب کچھ  ملک میں اشرافیہ کے وضع کردہ اُس نظام  کے دائرہ کار میں گھومتی  ہے۔
اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس، اصف کھوسہ صاحب، اپنے گیارہ مہینے سے کچھ زیادہ  دورانیے میں  پندرہ ہزار پانچ سو پچپن کیسز کا فیصلہ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے اس حقیقت کا بھی انکشاف بھی کیا  “کہ عدالت کے لاجر بینچز اہم کیسز میں مصروف رہے جس پر عدالت کا زیادہ وقت صرف ہوا۔”
نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے نام پر جنگ میں ہلاکت کے حوالے سے ایک اسٹیڈی کے مطابق چار لاکھ اسی ہزار سے پانچ لاکھ کے قریب لوگ مرگئے اُن میں زیادہ تر کا تعلق افعانستان، پاکستان اور عراق سے تھا جس میں سویلین، جنگجو، پولیس اہلکار، سیکورٹی فورسز ، امریکہ اور اتحادی ممالک کے افواج بھی شامل تھے۔  واٹسن انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس جنگ میں دو لاکھ چوبیس ہزار [بے قصور] شہریوں کی جان چلی گئی، اور جو عام لوگ ہوتے ہیں اُن کا جنگ سے نہ بالواسطہ اور نہ بلاواسطہ کوئی تعلق ہوتی ہے اور اُن کی ایک مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ اُس ملک کے شہری ہوتے ہیں۔ اور یہ ہلاکت جس میں عام شہری،بچے ، بوڑھے ، عورت، بیمار اور معذور لوگ کی ہلاکت ہوئی وہ “کولیٹرل ڈیمج” میں شامل ہوئے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹیڈیز کے ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں 262 بم دھماکوں کی صورت میں 595 لوگ ، جس میں سیکورٹی اہلکار بھی شامل تھے، ہلاک ، اور ایک ہزار 30 لوگ زخمی ہوگئے۔ صرف گزشتہ سال کے دوران اتنے لوگ کولیٹرل ڈیمج کی شکل میں ہلاک اور زخمی ہوگئے۔
ہم دور کیوں جائیں چند دن پہلے کالے اور سفید کوٹ والوں کے درمیان پی۔آئی۔سی میں مخالفت اور احتجاج کی وجہ سے تین بے قصور لوگوں کی جان چلی گئی۔ اور روزانہ کے حساب سے کئی ایک لوگ مررہے ہیں جو “سوشیل کولیٹرز “کے زمرے ٘میں آتے رہتے ہیں۔ چند سال پہلے ضلع تھر میں 62 بچوں کی ہلاکت  ایک بہت بڑی خبر تھی جسے اُس وقت کے چیف جسٹس نے “قومی شرمندگی” سے تعبیر کی۔ ایک اندازے کے مطابق  پاکستان میں 44 فیصد بچے اسٹنٹنک اور غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ ریاست پاکستان میں جو بیانیہ اور جو کاونٹر بیانیہ  بن جاتا ہے اور ہو جاتا ہے وہ بنیادی حقوق، صحت ، تعلیم اور دوسرے مسائل کے حوالے سے نہیں ہوتے بلکہ وہ بھی ایک خاص انداز وبیان سے چلتی ہیں جس کے آگے پیچھے درجہ بندی ہوتی ہے۔ اور اکثر الیکشن کے عیں وقت لائے جاتے ہیں تاکہ اُس پر عوام کا ووٹ لیا جائے۔   اور جب تک ہمارے ملک میں سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام اشرافیہ [وہ نہیں جو میرٹ پر آتی ہے] کے ہاتھ  امرانہ سوچ اور نوآبادیاتی نظام کی گردش اور دائرے سے نکل نہیں جاتی ہمارے مجموعی نظام اور طرز زندگی میں تبدیلی کئی ایک دہائیوں کیلئے موخر ہوسکتی ہے اور وہ جو کولیٹرل ڈیمج کا شکار ہوتے ہیں وہ سوشیل کولیٹرز ہیں وہ ہوتے  رہیں گے اُن کی  شنوائی ، وقعت اور خبر گیری ہو نا ممکن نہیں جب تک یہ شریک جمہوریت  حقیقی جمہوریت میں منتقل نہ ہو۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔